پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے قریب ڈھائی برس قبل حکومت پاکستان کو چند سفارشات ارسال کی تھیں‘ جن کا بنیادی نکتہ عین اُن ہی کے الفاظ میں تھا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کےلئے سب سے پہلے اپنی داخلہ پالیسی کو درست کرنے پر توجہ دینی ہوگی اسی صورت میں دنیا میں ہماری بات سنی جا سکے گی اور پاکستان کشمیر سمیت اپنے بنیادی مسائل پر کوئی مو¿ثر کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے گا۔کشمیر کمیٹی کی مذکورہ رپورٹ میں حکومت پاکستان کو کئی دیگر اہم تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں جن کا نکتہ یہ تھا کہ موجودہ حالات میں پاک چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ عالمی سیاست میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے اور عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے تعلق سے ان دنوں جو پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں‘ وہ اقتصادی راہداری ہی کے گرد گھومتی ہیں۔کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ’ان دنوں‘ بھارت نے کشمیر کے ضمن میں جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اور مذاکرات کی بار بار پیشکش کے باوجود کشیدگی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے یا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذریعے پاکستان کےلئے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔کمیٹی کے مطابق دیگر عوامل کے علاوہ ان کی ایک اہم وجہ اقتصادی راہداری ہے جس کے بارے میں طاقت کے بعض عالمی مراکز کا انداز فکر پاکستان سے مختلف ہے‘ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ پاکستان اپنے داخلی حالات کو فوری طور پر درست کرے کیونکہ مکمل قومی اتفاق رائے کے ذریعے ہی پاکستان بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اعتماد کے ساتھ اپنا مو¿قف پیش کر کے اپنے قومی مقاصد کے حصول کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل پر مشتمل ایک سہ ملکی اتحاد کچھ اس قسم کا ماحول پیدا کر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے نکتہ نظر سے کچھ ایسے نان ایشوز اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جن میں الجھ کر پاکستان اپنے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے مسائل میں الجھ جاتا ہے جن کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کےلئے سیاسی ہی نہیں اقتصادی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور ان مسائل پر سے نمٹنے کےلئے داخلی سطح پر زیادہ بڑے‘ غیر معمولی اور حساس پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔اس پس منظر میں کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کو ہمیشہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا درجہ دیا جائے اور اسے کسی ایک ایوان کی کمیٹی نہ بنایا جائے۔دوسری تجویز یہ پیش کی گئی کہ قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو ایک سطح پر جا کر یکجا کر دیا جائے تاکہ قومی سلامتی‘ کشمیر اور قومی سلامتی کی طرح ہی اہم اقتصادی معاملات پر ایک بڑا پلیٹ فارم غور فکر کر کے پالیسی کی تشکیل میں معاونت کر سکے۔کمیٹی کی ان تجاویز کے پس پشت یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ حکومت‘ پارلیمنٹ میں نمائندہ سیاسی قوتیں اور عسکری قیادت جب ایک پلیٹ فارم کو یکجا ہو کر فیصلے کریں گی تو اس کے نتیجے میں زیادہ بڑے پیمانے پر قومی اتفاق رائے بھی وجود میں آئے گا اور بیرون ملک بھی پاکستان کا مو¿قف زیادہ توانائی کے ساتھ پہنچ سکے گا۔ واضح رہے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن نے یہ سفارشات اپنے ایک خط میں اس وقت کی حکومت کو پہنچا دیں تھیں لیکن وہ حکومت اس وقت غیر معمولی سیاسی بحرانوں میں گھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہ اہم معاملہ قومی ایجنڈے پر نہ آسکا۔پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی یہ سفارشات اس وقت پارلیمان کی لائبریری میں موجود ہیں اور بہت ساری ایسی تجاویز اور کتابوں میں دفن کر دی گئی ہیں۔ پاکستان کی نظریں مستقبل پر ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل قمر جاوید باجوہ نے داخلہ پالیسی کے حوالے سے جو بات اشارتاً کہی‘ اس پر قومی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ جس میں ملک میں اقتصادی ڈھانچے کی مضبوطی اور داخلی استحکام کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور دیکھا جائے تو خارجہ محاذ پر کامیابی تب ہی مل سکتی ہے جب داخلی استحکام ہو اور موثر پالیسیوں پر عمل درآمد ہو رہا ہو۔کچھ حلقوں کے مطا بق موجودہ حالات میں کشمیر اور دوطرفہ مسائل کے حل کے سلسلے میں مذاکرات کی کلید بھارت نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اور جب وہ حالات کو اپنے مقاصد کے اعتبار سے موزوں پائے گا‘ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرے گا جس میں پاکستان کےلئے نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کا راستہ بھرپور قومی اتفاق رائے‘ اقتصادی طور پر مضبوط پاکستان اور ایک مضبوط حکومت ہی کر سکتی ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف‘ ایف ٹی اے ایف اور انسانی حقوق کمیشن وغیرہ کے بڑھتے ہوئے دباو¿ سے نمٹنے کا راستہ بھی یہیں سے نکلتا ہے۔ یعنی اس وقت مضبو ط معیشت ہی مضبوط خارجہ اور داخلہ پالیسی کی اساس ہے ۔ ہماری بات میںتب وزن ہوگی جب ہم ایک خودمختار خوشحال اور اقتصادی طور پر خود کفیل ملک کی حیثیت سے اپنی پہچان کرائیں۔صرف اسی صورت میں ہم اپنی پالیسیوں کو خاطر خواہ طور پر دوسروں سے منوا سکیں گے۔ پاک چین اشتراک سے جو اقتصادی منصوبے اس وقت پروان چڑھ رہے ہیں ان سے یہ مقصد بخوبی حاصل ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم تیزی کے ساتھ ان کو تکمیل کے مراحل تک پہنچائیں۔ اور اس سلسلے میں وقت ضائع کئے بغیر ان منصوبوں کے ساتھ جڑے دیگر ترقیاتی پراجیکٹس کو بھی مکمل کرے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر طفیل عظمت۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔