پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اندر زبانی جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اگرچہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہونے والی ابتدائی الزام تراشی زیادہ عرصہ نہیں چلی، لیکن سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کےلئے پیپلز پارٹی کے اکیلے حرکت میں آنے سے ان الزامات کا نیا دور شروع ہوگیا ہے۔ بلواسطہ ہونے والی گزشتہ ت±و ت±و، میں میں اب براہِ راست ہورہی ہے۔پہلے کی طرح اب بھی تنازع استعفوں کے معاملے پر ہی شروع ہوا۔ آئیے پہلے ماضی کے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ابتدائی طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ گزشتہ سال دسمبر میں ہوا تھا، جسے پھر ملتوی کردیا گیا۔ لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی نہ ملنے کے بعد جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے استعفوں کو دوبارہ زیرِ بحث لایا گیا۔ ظاہری وجوہات کے باعث پیپلز پارٹی استعفوں کے حق میں نہیں تھی۔معاملات اس وقت زیادہ خراب ہوئے جب پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف زرداری کی تقریر کو میڈیا پر لیک کردیا گیا جو نواز شریف کے لیے کچھ اچھی نہیں تھی۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ خبروں کے مطابق دسمبر میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بھی نواز شریف کے پاکستان واپس آنے کے حوالے سے اسی قسم کے بیانات دئیے گئے تھے لیکن جماعت نے ان خبروں کی تردید یا تصدیق سے انکار کردیا تھا۔تمام رہنماو¿ں کا کہنا تھا کہ پارٹی اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ تاہم اس مرتبہ جماعت کی جانب سے ان خبروں کی تصدیق کردی گئی۔ یہاں ایک فرق اہم ہے، ظاہری طور پر بلاول بھٹو کی تقریر بھی کوئی بہت اچھی نہیں تھی لیکن اس حوالے سے زیادہ بات نہیں ہوئی۔ بہرحال اس وجہ سے سامنے آنے والے تنازع کو بڑھنے سے پہلے ہی سنبھال لیا گیا۔لیکن پردے کے پیچھے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کےلئے رسہ کشی شروع ہوچکی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ابتدائی طور پر اس بات پر راضی تھی کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) کا ہوگا لیکن چیئرمین سینٹ کی نشست ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی کی نظریں اب سینٹ میں اپوزیشن لیڈر پر تھیں۔ پیپلز پارٹی سمجھتی تھی کہ یوں یوسف رضا گیلانی کی جیت کا تسلسل برقرار رہے گا۔پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کے امیدوار پر اعتراض کے طور پر ان افراد کا ذکر کیا جن کی وہ عدالت میں نمائندگی کرتے رہے ہیں۔تاہم اس مرتبہ مسلم لیگ (ن) پیچھے ہٹنے کےلئے تیار نہیں تھی۔ انہیں طے شدہ امور میں تبدیلی کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی اور یوں جو تنازعہ ابھی پردے کے پیچھے محدود تھا وہ سامنے آگیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران پیپلز پارٹی نے لندن میں بیٹھے مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں سے بات کرنے کی کوشش بھی کی جو ناکام رہی۔ یوں پیپلز پارٹی نے اپنے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا اور حکومت کی مدد سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرلیا۔اس عمل کے بعد پی ڈی ایم کے اندر حالات کشیدہ ہوگئے تھے اور کئی تجزیہ کاروں نے اسے پی ڈی ایم کا اختتام قرار دیا تھا۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ بڑھتے ہوئے تناو¿ کے باوجود سینئر سیاستدانوں یعنی نواز شریف اور آصف زرداری کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تو کیا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ ان کے خیال میں اس وقت بچوں کے درمیان جاری تناو¿ سے خود کو علیحدہ رکھنا ہی بہتر ہو تاکہ وہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر پھر ساتھ مل سکیں۔آخر پی ڈی ایم کو زندہ رکھنے سے ان دونوں جماعتوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ اگر پیپلز پارٹی اس اتحاد سے الگ ہوتی ہے تو یہ ان آوازوں کو مزید جلا بخشے گی جن کے مطابق یہ اتحاد سیاست میں اکیلے رہ جانے والوں کا اتحاد ہے۔ پیپلز پارٹی کے بغیر مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف کےلئے یہ تاثر ختم کرنا بھی مشکل ہوجائے گا کہ وہ صرف اس وجہ سے انقلابی بن گئے ہیں کہ انہیں اقتدار سے محروم کردیا گیا ہے، اور یہ بھی کہ یہ صرف مسلم لیگ (ن) کی جنگ ہے جس کی وجہ پنجاب ہے۔یہاں استعفوں کا معاملہ بھی موجود ہے۔ استعفے دینے کا اعلان کرنا تو آسان ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا بہت مشکل ہے کہ جماعت کے تمام اراکین عملی طور پر استعفے جمع بھی کروائیں۔ ۔ اگر پیپلز پارٹی اس معاملے سے باہر نہ آتی تو اس بات کا امکان موجود تھا کہ مسلم لیگ (ن) بھی اس بات کو تسلیم کرلیتی کہ استعفے دینا کوئی قابلِ عمل راستہ نہیں ہے۔ لیکن اب جبکہ پیپلز پارٹی نے استعفے نہ دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مسلم لیگ (ن) اخلاقی برتری حاصل کرکے یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے وسیع تر مفاد میں استعفوں کے معاملے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کو بھی اپوزیشن جماعتوں کی ضرورت ہے۔ ایک طرف اسے سندھ حکومت کو بھی بچانا ہے اور دوسری جانب اسے احتساب کے دباو¿ کا بھی سامنا ہے۔ ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کےلئے پیپلز پارٹی کو بہت ہی محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔پیپلز پارٹی کے سر سے ابھی احتساب کی تلوار اتری نہیں ہے، اور اس سے نمٹنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنی رہے کیونکہ یہی اتحاد اتنا بڑا اور قومی نوعیت کا ہے جو حکومت اور نیب کو دباو¿ میں رکھ سکتا ہے۔دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو اگر اب بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو اس اتحاد سے ان دونوں جماعتوں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت اپوزیشن کی دو اہم جماعتوں کے درمیان باہمی چپقلش کو کسی بھی طرح پی ڈی ایم کے لئے نیک فعال قرار نہیں دیاجا سکتا ایسے میں جب مریم نواز اور بلاول بھٹو کے بعد اب دیگر رہنما ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی خاموش معنی خیز ہے۔(بشکریہ ڈان©‘تحریر:عارفہ نور‘ ترجمہ: ابو الحسن امام)