عمران خان کا یہ بیان بڑا معنی خیز ہے کہ لوگوں کو امید تھی کہ میں ایک ماہ میں حالات ٹھیک کروں گا فوری تبدیلی کیلئے ایک اور طرح کے انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت میں تبدیلی میں وقت لگتا ہے ان کا یہ بیان بھی کافی غور طلب ہے کہ اربوں کی چینی چوری کرنے والوں پر پھول پھینکے جاتے ہیں اور یہ کہ بیوروکریسی کے پرانے حکمرانوں سے رابطے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اکیلے کرپشن سے نہیں لڑ سکتے ‘ واقفان حال جانتے ہیں کہ 1970 کے بعد سے ہی بلکہ یوں کہیے 1980 کی دہائی میں نوکر شاہی کو وسیع پیمانے پر سیاسی رنگ میں رنگ دیا گیا جو حکومتیں اس عرصے میں بر سر اقتدار رہی ہیں انہوں نے ہر کیڈر میں اپنی مرضی کے اپنے منظور نظر افراد کو نوکر شاہی میں بھرتی کیا اور ان کی باقیات آج بھی ہر وزارت اور محکمہ میں موجود ہیں وہ نہ صرف منٹ منٹ کی خبر اپوزیشن میں موجود اپنے محسنوں کو پہنچا رہے ہیں بلکہ وہ حکومت وقت کے کاموں میں رخنے بھی ڈال رہے ہیں اسی لئے تو سیانوں کی اس نصیحت میں کافی وزن ہے کہ سول سروس اور پولیس میں بھرتی ہمیشہ میرٹ کی بنیاد پر کی جانی ضروری ہے میرٹ کی بنیاد پر جو شخص بھی انتظامیہ میں آئے گا وہ پھر کسی بھی حاکم کو یہ اجازت نہ دے گا کہ اسے وہ گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کرے ۔ وہ پھر ہر کام قانون کی کتاب کے مطابق کرے گا اس کی ہمدردیاں پھر ریاست کے مفاد سے وابستہ ہوں گی نہ کہ کسی فرد واحد کے ساتھ۔ جہاں تک ان کی اس بات کا تعلق ہے کہ لوگ اربوں کی چوری کرنے والوں پر پھول پھینکتے ہیں تو یہ واقعی ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ ابھی تک ہم من حیث القوم یہ نہیں پہچان سکے ‘یہ نہیں جان سکے کہ ہمیں کن کن لوگوں نے لوٹا ہے جب تک اس ضمن میں قومی سیاسی شعور بیدار نہ ہوگا اور ہم اچھے برے میں تمیز کرنا نہیں سیکھیں گے تب تک اس ملک میں صحیح معنوں میں اچھے لوگ ایوان اقتدار میں کبھی بھی نہیں آئیں گے شاعر مشرق نے یوں تو نہیں کہا کہ
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
عمران خان نے بالکل درست فرمایا کہ خونی انقلاب الگ چیز ہے جس میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم روس اور چین پر نظر ڈالیں تو لینن اور ماوزے تنگ نے بھی اسی قسم کی سختی کر کے اپنے ملک کی معیشت کو بحال کیا تھا وطن عزیز میں یہ اس لیے ممکن نہیں کہ یہاں پارلیمانی جمہوریت ہے بات بات پر لوگ انسانی حقوق کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں ہر شعبے میں مافیا نے اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں یہاں پر تبدیلی آ سکتی ہے پر صرف اس صورت میں کہ اگر قوم کسی بھی سیاسی پارٹی کو بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کی نشستیں دلوا دے تاکہ وہ اگر عوام کی فلاح و بہبود کےلئے کوئی پروگرام چلانا چاہے تو باآسانی پارلیمنٹ میں قانون سازی کر سکے اگر اس ملک میں ہر الیکشن کے بعد چوں چوں کا مربا بنتا رہا اور اس کے نتیجے میں مخلوط حکومت عمل میں آتی رہی توحکومت وقت کےلئے کبھی بھی یہ ممکن نہ ہوگا وہ وہ اپنے ایجنڈے کو عملی شکل دے سکے۔جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب شاید مولانا فضل الرحمن صاحب کے لئے کافی مشکل ہو جائے کہ وہ پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کو ختم کر سکیں جس طرح دونوں طرف سے بیان بازی جاری ہے تو اس سے لگتا ہے ہ وقت گزرنے کے ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں فاصلے بڑھتے ہی جائیں گے اور یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ چند مواقع کوچھوڑ کر یہ جماعتیں اکثر حالات میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہی رہیں ہیں ۔