حالیہ وبائی بیماری نے سرمایہ دارانہ نظام کو بری طرح سے بے نقاب کردیا ہے ، وہ لوگ جنہوں نے ہمیشہ فیکٹری مالکان اور کمپنی ڈائریکٹرز کو منافع کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دی انہیں بغیر معاوضہ کے ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ ایسا متعدد ممالک میں ہواجہاں سرمایہ دار طبقے نے وبائی امراض اور کاروباری نقصانات کے نام پر اپنی اپنی حکومتوں سے بھاری رقم وصول کی لیکن انہوں نے کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ تیسری دنیا کے ممالک میں بھاری بیل آو¿ٹ پیکجوں نے صنعتکاروں کے نقصانات کی تلافی توکی لیکن ایسے پیکجوں کے حقیقی فوائد عام کارکنوں تک نہیں پہنچ سکے۔ لاکھوں ایسے کارکنان اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، اور انھیں بدحالی اور غربت کی لپیٹ میں آنے دیا گیا۔یہ صرف ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں تھے جو کمزور طبقے کی خدمت کرنے میں ناکام رہے ہیں جو اپنے لازائف فیئر فلسفہ کی مدد سے بھی لوگوں کو معاشرتی استحکام کی تہہ سے موثر انداز میں مدد فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ترقی یافتہ ممالک میںوبائی امراض کے دوران ہلاک ہونے والے لاکھوں افراد میں سے زیادہ تر معاشرے کے پسماندہ طبقات یا تارکین وطن تھے۔ شمالی امریکہ ، یورپ اور آسٹریلیا میں یہ بنیادی طور پر محنت کش طبقے تھے جنہیں وبا سے بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا۔ جب کہ ان ممالک کے امیر قدرتی آفات اور اس کے بے رحمانہ حملوں سے بچنے کےلئے محفوظ مقامات کی طرف اُڑ رہے تھے ، غریب مغربی شہروں اور قصبوں کے محنت کش طبقے کے علاقوں میں روزانہ سینکڑوں اور ہزاروں افراد موت کا شکار ہو رہے تھے۔بے روزگاری اور مہلک وائرس دنیا بھر کے لاکھوں محنت کش طبقے کے لوگوں کو پریشان کررہا تھا لیکن وہ دن رات کام کرتے رہے ، اپنے مالکان کو فائدہ پہنچاتے رہے جنہوں نے وبائی امراض کے دوران جی کھول کر کمایا۔ لیکن ان مالکان نے بڑائی یا رحم کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ اپنے مزدوروں سے کم اجرت پر محنت کروانا چاہتے ہیں۔ بڑی کمپنیوں نے جو مہینوں کے دوران امیر ہوئیں ، ان ٹیکسوں کی ادائیگی سے بھی انکار کردیا جس کی مدد سے ترقی یافتہ سرمایہ دار دنیا کی ریاستوں کے غریبوں کی مدد میں مدد مل سکتی تھی۔ برنی سینڈرز اور کچھ دیگر ممتاز امریکیوں سمیت صفر ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں کے نام سامنے آئے۔ ایسے افراد نے اپنے مزدوروں کو دی جانے والی اجرت اور کم قیمت والے مزدوروں کے ذریعہ تیار کردہ سامان کی قیمتوں کے درمیان موازنہ بھی پیش کیا۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سخت قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی یا اس طرح کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کمپنیاں لوگوں کو دھوکہ دینے اور رقم کمانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اسی وجہ سے آزاد بازار کی معیشت کے ساتھ مضبوط جمہوریتوں میں زیادہ اموات ہوئیں جبکہ ان ممالک کے مقابلے میں جہاں سرمایہ داری پر قابو پایا جاتا تھا یا کسی حد تک کمپنیوں کو بے لگام آزادی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں تھی وہاں نقصان کم رہا۔ ان اموات میں سے بہت سے حکومتوں کے بروقت اقدامات سے آسانی سے روکا جاسکتا تھا۔ ٹاپ کے سرمایہ دار ممالک میں بیل آو¿ٹ پیکیج بھیجنے میں تیزی سے کام لیا گیالیکن وہ لوگوں تک اس کی توسیع کرنے سے گریزاں ہیں۔ منافع بخش سوچ کے سبب ویکسین کی تیاری میں بھی تاخیر ہوئی۔ کمپنیوں کو لوگوں کی حالت زار سے زیادہ ویکسین کی قیمت پر زیادہ تشویش تھی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پوری دنیا کی حکومتوں نے اربوں ڈالر کی ویکسین کی تیاری میں رقم کی ، نجی مینوفیکچروں کو اس پر بھاری منافع کمانے کی اجازت دی اگر ریاست نے ویکسین تیار کرنے کی ذمہ داری لی ہوتی تو ، ان کی قیمت بہت کم ہوجاتی۔ان ممالک کے برعکس جہاں سرمایہ دارانہ نظام کار لاگو ہے سخت قواعد و ضوابط رکھنے والی ریاستوں میں وبائی امراض کی وجہ سے ہونے والے نقصان پر قابو پالیا گیا۔ چین ، کیوبا اور متعدد دوسرے ممالک جہاں سخت قواعد و ضوابط ہیں یا اقتصادی معاملات پر سخت ریاستی کنٹرول لاکھوں جانوں کی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ چین وبائی بیماری کا شکار پہلا ملک تھا۔ اس کو ایسی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا ، لیکن پھر بھی ریاست کے بڑے مداخلت نے اس بحران پر قابو پانے میں مدد کی۔ وبائی امراض کے دوران صرف چند ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ سوشلسٹ ملک بھی ایسی ویکسین لے کر آیا جو نہ صرف اپنے ہی لوگوں بلکہ دنیا بھر کی ریاستوں کی مدد کررہے ہیں۔ اگر بیجنگ نے نجی سرمایہ کار شعبے کو ویکسین بنانے پر مامور کیا ہوتا تو معاملات بہت مختلف ہوتے۔ کیوبا میں تقریبا ًکوئی نجی سرمایہ کاری نہیںہے اور پھر بھی اس نے دنیا کی ہر ریاست کو مات دے دی ہے۔ چھوٹے سے جزیرے والے ملک میں وبائی امراض کے دوران اموات کی تعداد بہت ہی کم رہی ہے۔ ریاست کے زیر انتظام اس کے صحت کے بہترین نظام نے حیران کن مظاہرہکیا ، یہاں تک کہ اس کے ناقدین کو بھی حیرت زدہ کردیا۔یہ نہ صرف وبائی بیماری ہے جس سے سرمایہ دار انہ نظام میں اصلاح کی نشاندہی کی کہ بے لگام سرمایہ داری اکثریت کے لوگوں کےلئے خوشحالی نہیں لاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ، 190 سے زیادہ ریاستیں لائف از فیئر فلسفہ کی پیروی کرتی ہیں لیکن صرف وہی ریاستیں جنہوں نے سخت قواعد و ضوابط کو نافذ کیا اور نجی سرمایہ کاری کو کنٹرول کیا وہ اپنے عوام کی خدمت میں کامیاب رہے۔ چین میں ریاست کے سخت قواعد اور نگرانی نے غیر معمولی معاشی نمو حاصل کرنے میں مدد کی۔ آج بھی سب سے کامیاب چینی کمپنیوں میں سے ایک تہائی ریاست کی ملکیت ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق ، 60 فیصد سے زیادہ انسانی وسائل ابھی بھی حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے اداروںسے وابستہ ہیں۔ ریاست کی مداخلت کی وجہ سے ہی غیر ملکی کمپنیاں ٹیکنالوجی کی منتقلی پر راضی ہوگئیں۔ویتنام ایک اور مثال ہے جہاں حکومت نجی سرمایہ کاری کو حکومت کنٹرول کرتی ہے اور اسے ریاست کے ذریعہ عائد سخت ضابطوں پر عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس ملک میں گذشتہ تین دہائیوں میں غیر معمولی معاشی نمو دیکھنے میں آئی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ متعدد نجی کمپنیاں وہاں سالوں سے کام کررہی ہیں ، ریاست اب بھی تقریبا ً زیادہ ترکمپنیوں کے ساتھ اقتصادی سرگرمیوں کا ایک خاص حصہ کنٹرول کرتی ہے جس میں ریاست کا اکثریتی حصہ ہے جبکہ 781 کے قریب سرکاری کمپنیوں کا 100 فیصد حصہ ہے۔ ملک نے بنیادی ضروریات کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا ، غریبوں کے علاج معالجے کے 80 فیصد اور انتہائی غریبوں کے سو فیصد اخراجات برداشت کئے۔ کمیونسٹ ملک نے ایک بہترین ہنر مند افرادی قوت پیدا کرنے کے ساتھ غربت کو بھی بہت حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جو ریاست کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد فراہم کررہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد مارکیٹ کی خوشخبری صرف اس صورت میں لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جب ریاست کے ذریعہ اسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بغیر کسی ریاستی مداخلت کے بے لگام سرمایہ داری ریاستوں اور معاشروں کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔( بشکریہ دی نیوز: تحریر: عبدالستار‘ترجمہ: ابوالحسن امام)