ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ وبائی امراض انسانیت پر بغیر انتباہ کے گر جاتے ہیں۔ تاہم سائنس کے اس دور میں یہ ممکن ہونا چاہئے ‘ واقعتا یہ ممکن ہے یعنی وبائی امراض کا خاتمہ کرنا۔ہم ان سائنسی علم کا فائدہ اٹھا سکتے ہیںجو ہم نے دہائیوں میں جمع کیا ہے اور جس طریقے سے ہم نے اسے زمین کے تمام لوگوں کی بھلائی کےلئے استعمال کرنا سیکھا ہے۔ واقعی ، اس وقت ، دنیا بھر میں کوویڈ 19 کے خلاف ویکسینیشن ڈرائیو غیرمعمولی طور پر غلط انداز میں جاری ہے ، ایک ترقی یافتہ ملک میں پہلی خوراک افریقہ میں پہلی خوراک سے 90 دن پہلے دی گئی ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی اس عدم مساوات کو دیکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ ملک میں وبائی حالت خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ اب روزانہ 4000 سے زیادہ افراد انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں اور اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس بڑے مسئلے کو بہت زیادہ قابلیت کے ساتھ نپٹانے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کےلئے بہت زیادہ ڈیدیکیشن کی ضرورت ہے جس نے پہلے ہی پاکستان میں ہر جگہ بہت زیادہ جانی نقصان کیا ہے۔لیکن شاید اس کا انتظام صرف ایک بہت ہی فعال حکومت اور انتظامیہ ہی کر سکتا ہے اور اس حوالے سے ہم کئی سطحوں پرکمزوری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔کوویڈ۔ 19 وبائی مرض سے نمٹنے کےلئے ، ہمیں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بہت سے دیگر مسائل موجود ہیں تاہم اس وقت کوویڈ کا مسئلہ مجموعی طور پر سب سے اہمہے۔ پہلے ہی ، ہر جگہ ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں ملازمت سے محروم ہونے کی وجہ سے بھوک کا سامنا ہے ۔ ہم ان نجی کاروباروں کے بارے میں جانتے ہیں جنہوں نے اپنے عملے کو اس بنیاد پر تنخواہ دینے سے انکار کردیا ہے کہ معاشی خرابی کے نتیجے میں وہ اب منافع نہیں کما رہے ہیں جو اس وائرس کے ساتھ ساتھ آگیا ہے جو پوری دنیا میں انسانی آبادی میں پھیل چکا ہے۔لیکن اس وبائی بیماری کو روکنے کو ترجیحات کے اوپری حصے میں رکھنا ہوگا۔ ہم پہلے ہی جنوبی ایشیاءکا وہ ملک ہیں جس میں ویکسی نیشنکی شرح سب سے کم ہے۔ جیسے حالات سامنے آرہےہیں ، پورے ملک میں ، تمام بڑے شہروں میں ، جلد سے جلد مکمل تالابندی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں وائرس کی نشوونما اور ٹرانسمیشن کی شرح اب خوفناک ہے۔ یہ تقریبا ہر کسی کے گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ روزانہ اپنے دوست ، جاننے والے ، کسی ساتھی ، یا کسی اور کے بارے میںسنتے ہیں جس کے ساتھ ہم نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ شریک کیا ہے جو کوویڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال میں مر گیا ہے یا اس کی حالت نازک ہے۔ یو کے وائرس کی مختلف قسم کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پورے خاندان کو خطرہ ہے جبکہ پہلے گھر کے ایک سے دو ممبران کوویڈ کے ساتھ ہسپتالوں میں لایا کرتے تھے ، اب چھ سے سات ممبر آرہے ہیں کیونکہ یوکے وائرس مختلف حالت میں بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور ایک شخص سے دوسرے شخص تک آسانی سے جاتا ہے۔اس بار بچوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ متعدد کی موت ہوگئی ہے۔ فائزر امریکہ میں 12 سے 15 سال کے درمیان بچوں پر ٹیسٹ کررہا ہے اور وہ اس کی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔ اس کو امید ہے کہ جلد ہی اس عمر گروپ کےلئے ویکسین دستیاب ہوگی۔ لیکن یقینا ہمارے ملک میں ایک ایسی ویکسین ابھی بہت دور ہے جو بچوں اور نوعمروں میں استعمال کےلئے محفوظ ہو۔لاک ڈاو¿ن کے علاوہ ، ہمیں ان بالغوں کے لئے ویکسینیشن تیز کرنے کا ایک راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو دستیاب ویکسین حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ ایسا کرنا ناممکن نہیں ہے۔ ہمیں محض کوواکس یا چین کے ذریعہ ہمیں دی جانے والی ویکسین پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان بڑی تعداد میں ویکسین خریدنے کےلئے کافی وسائل جمع کرسکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ پولیس نے انتباہ کیا ہے کہ کچھ شہروں میں ماسک نہ پہننے والوں کو جرمانہ اور گرفتار کیا جائے گا۔ لیکن ہمیں اس سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں لوگوں کو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے سے روکنے کی ضرورت ہے ، اور ہمیں لوگوں کو شادیوں اور اسی طرح کے دیگر افعال سمیت بڑے اجتماعات میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ وقت میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ صرف اس صورت میں ہم اس وقت اس کی شرح سے ٹرانسمیشن کی روک تھام کی کوئی امید کر سکتے ہیں۔ہمیں یہ پوچھنا چاہئے کہ ہماری حکومت اس معاملے پر زیادہ توجہ کیوں نہیں دے رہی ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ این سی او سی نے بہت سارے معاملات میں تیزی اور دانشمندی سے کام لیا ہے ، اور کوششیں اب بھی جاری ہیں۔تاہم اس سلسلے میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے جنگی بنیادوں پر اب ویکسی نیشن کی ضروریات کو پورا کرنا سب سے اہم ہے ۔ملک کو بند کرنا بھی ممکن ہے تاہم یہ ایک بہت ہی مہنگا نسخہ ہے جس کے مقابلے میں ویکسی نیشن بہت سستا اور آسان طریقہ ہے جس پر عملد رآمد ضروری ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت کورونا وباءکا مقابلہ کرنے کے لئے ممالک میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس کو وہی ملک جیتے گا جو خودکفالت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے خود ویکسین کی دستیابی کو ممکن بنائے گا اور اس کی قیمت اس پیمانے پر مقرر کرے کہ جسے ملک کے تمام افراد بلاامتیاز خرید سکیں اگر ویکسی نیشن کا عمل بلاامتیاز نہیں ہے اور نادار اور غریب اس عمل سے باہر رہتے ہیں تو یقینا اسے ایک المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے جس کا متحمل اس وقت کوئی بھی ملک نہیں ہو سکتا اس لئے ضروری ہے کہ ویکسی نیشن کو تمام امور پر ترجیح دی جائے اور تیزی کے ساتھ پورے ملک میں ہر عمر کے افراد کیلئے اس کی دستیابی کو ممکن بنایا جائے۔( بشکریہ دی نیوز‘تحریر:کمیلہ حیات‘ ترجمہ: ابوالحسن امام)