’تحریک ِانصاف‘ حکومت کے 32 ماہ کے دوران مالیاتی کارکردگی کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے 10 کھرب روپے خرچ کئے لیکن اِن مجموعی و متفرق اخراجات کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ رقم حکومت کی آمدنی سے زیادہ ہے اور ماضی کی سیاسی و غیرسیاسی حکومتوں کے ادوار میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا کہ حکومت ِ وقت اپنی آمدنی سے زائد خرچ کرتی رہی۔ تکنیکی و اصطلاحاتی لغت میں اِس قسم کے مالیاتی نظم و ضبط کو ’بجٹ خسارہ‘ کہا جاتا ہے جسے پورا کرنے کے لئے حکومت کو بھاری شرح سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔ قرض کسی داخلی ذریعے سے لیا جائے یا عالمی ذریعے سے‘ اِس کی خرابیوں میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ قرض دینے والا اپنی شرائط بھی منواتا ہے جس کے باعث حکومت کا اپنے مالیاتی فیصلوں پر زیادہ اختیار و اعتبار نہیں رہتا۔حکومت کی آمدنی کم لیکن اخراجات زیادہ ہونے سے پیدا ہونے والا ’بجٹ خسارہ‘ قرض لینے کا ایک ایسا دھندا اور پھندا ہے کہ اِس میں ایک مرتبہ گرفتار ہونے کے بعد رہائی کی صورت بہت کم رہ جاتی ہے۔ گزشتہ 32 ماہ (تحریک انصاف کے دور اقتدار) میں بجلی کے پیداواری شعبے کا ’گردشی قرض‘ 1.1 کھرب روپے سے بڑھ کر 2.5 کھرب روپے ہو چکا ہے یعنی تحریک انصاف کے دور میں ’گردشی قرض‘ میں 1.4 کھرب روپے کا اضافہ ہوا اور چونکہ حکومت کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں اِس لئے 1.4 کھرب روپے کا خسارہ پورا کرنے کےلئے حکومت کے پاس سوائے قرض لینے کوئی دوسرا ایسا حربہ نہیں کہ جس کا استعمال کرتے ہوئے یہ معمولات جاری رکھے اور اِس طرح قرض کا پھندا جو حکومت کو پہلے ہی جھکڑا ہوا ہے اپنی گرفت مزید سخت بنا رہا ہے۔سرکاری محکموں نے حکومت سے 2 ہزار ارب روپے کے مساوی قرض لیا ہے۔ اِسی طرح گیس کے شعبے کا گردشی قرض 350 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ حکومتی ادارے اجناس و دیگر امور کی انجام دہی (کموڈٹی آپریشنز) میں 700 ارب روپے کا اضافی قرض لے چکے ہیں۔ تعجب خیز ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والا وفاقی ادارہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)‘ جس کا کام حکومت کا خزانہ بھرنا ہے اُس نے بھی ’ٹیکس ریفنڈز‘ کی مد میں 710 ارب کی ادائیگیاں کی ہیں جو گردشی قرض ہے اور ایک ایسی صورتحال ہے کہ جس میں ہر حکومتی ادارہ قرض لئے بغیر چلنے سے معذور ہے۔پاکستان کے مالیاتی منظرنامے کے 2 رخ ہیں ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ تصور کریں کہ 22 کروڑ آبادی والا ایک ایسا ملک جس میں جولائی 2020ءسے فروری 2021ءکے درمیانی عرصے میں 1.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ گزشتہ برس اپریل سے جنوری کے دوران بھارت میں72 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ ہوئی جو اِس سے قبل کے مذکورہ عرصے میں ہوئی سرمایہ کاری سے پندرہ فیصد زیادہ تھی۔ پاکستان میں ہر سال کم ہوتی غیرملکی سرمایہ کاری بھی ایک سبب ہے جس کی وجہ سے ملک قرض کے پھندے میں جھکڑا جا رہا ہے۔عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) پاکستان کی مالیاتی مشکلات (بجٹ خسارے) کو حل کرنے کی واحد صورت دکھائی دیتی ہے۔ آئی ایم ایف کی پاکستان کے بارے میں پالیسی 2 تقاضوں (شرائط) پر منحصر ہے۔ پہلا تقاضا یہ کیا جاتا ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے اور دوسرا تقاضا یہ کیا جاتا ہے کہ حکومت مالیاتی نظم و ضبط کو سخت بنائے تاکہ مالی بدعنوانی کے امکانات کم سے کم اور پاکستان میں کاروبار یا سرمایہ کاری کا عمل تیز رفتار بنایا جا سکے۔ یہ دونوں مطالبات اپنی جگہ لائق توجہ اور پاکستان کی انتہائی ضرورت ہیں لیکن اِن کی وجہ سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات (عام آدمی) کی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر جس قدر بھی عمل کرے اِس سے غریب اور متوسط طبقے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ سرمایہ داروں پر اِس کے مالیاتی پالیسیوں کی سختی سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کم ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے شرح سود کم کرنے کی بجائے اِس میں اضافہ کیا جائے اور اگر آئی ایم ایف کی دونوں شرائط کا جائزہ لیں تو اِس کا مطلب قومی پیداوار میں نمو کم ہو گی یعنی روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے اور جاری روزگار کے مواقعوں کی پائیداری بھی جاتی رہے گی۔آئی ایم ایف ٹیکسوں میں اضافہ اور سخت گیر مالیاتی پالیسی چاہتا ہے اور اگر حکومت اِس پر من و عن عمل کرتی ہے تو اِس سے قرضوں پر انحصار بڑھے گا جبکہ قرضوں سے خلاصی کےلئے قومی پیداوار میں اضافہ اور افرادی قوت سے زیادہ استفادہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کےلئے ترقی کا راستہ صرف ایک ہی ہے کہ وہ قرضوں پر انحصار کرنے والی حکمت عملیوں کو تبدیل کرے اور جلد سے جلد قرضوں سے خلاصی حاصل کرے۔ موجودہ حکمت عملی ناقابل فہم ہے کہ قرض کی اقساط اور قرضوں پر سود ادا کرنے کےلئے بھی قرض لیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا‘ قرض ختم نہیں ہوں گے۔ وہ قرض جو قومی فیصلہ سازوں کےلئے خوفناک ہونے چاہیئں لیکن اُنہیں خوشنما دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر حکومت اپنے اخراجات کم کرے اور حکومتی اداروں کے مالیاتی و انتظامی امور میں اصلاحات لائے تو وہ سب کچھ ممکن ہے جو فی الوقت ناممکن دکھائی دے رہاہے کہ کیا پاکستان قرض کے پھندے سے کبھی نکل پائے گا؟ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)