حزب ِاختلاف پھوٹ: درپردہ حقائق۔۔۔۔

تحریک اِنصاف کےلئے مشکل بننے کی کوشش میں ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘ خود مشکل میں پڑ گئی ہے اور حزبِ اختلاف پر مشتمل جماعتوں کے اِس اتحاد کے وجود پر اب خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اتحاد میں شامل دس سیاسی جماعتوں میں سے ایک عوامی نیشنل پارٹی پہلے ہی اس تحریک سے الگ ہونے کا اعلان کرچکی ہے۔ پیپلزپارٹی اگرچہ اتحاد کا حصہ بنی لیکن سینٹ میں یک طرفہ طور پر قائد ِحزب اختلاف کے عہدے پر اپنے نامزد امیدوار یوسف رضا گیلانی کو مقرر کروانے پر پی ڈی ایم کی جانب سے ملنے والے وضاحتی خط پر اپنی برہمی کا برملا اظہار کرچکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں حزبِ اختلاف کا عہدہ مسلم لیگ (نواز) کےلئے چھوڑنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس سے پہلے اتحاد میں شامل بقیہ نو جماعتوں کے برعکس پیپلزپارٹی لانگ مارچ کےساتھ اسمبلیوں سے استعفوں کو جوڑنے کے خیال کی مخالفت بھی کرچکی تھی۔ پی ڈی ایم نے اپنے بنیادی منشور اور مقاصد میں جن چھبیس نکات کو شامل کیا‘ ان میں اتحاد کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن قیادت کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے کے عمل کا مقابلہ کرنے کےلئے تحریک انصاف کی حکومت پر عوامی دباو¿ ڈالا جائے اگرچہ حزبِ اختلاف جماعتوں کا واضح مقصد وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی حکومت کا خاتمہ تھا لیکن اگر حکومت حزب اختلاف کے ساتھ کام کرنے کےلئے تیار ہوتی تو پی ڈی ایم اس کے ساتھ چلنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرتی بظاہر تحریک انصاف حکومت اپنی سیاسی وجوہات کی وجہ سے حزبِ اختلاف کے ساتھ سمجھوتہ کرتی دکھائی نہیں دی اور حکومت نے حزبِ اختلاف کو احتساب اور دیگر مقدمات‘ گرفتاریوں اور مقید رہنماو¿ں کو قانون کے مطابق بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے ذریعے دباو¿ میں رکھا۔ حزبِ اختلاف کو حقیقتاً دیوار سے لگادیا گیا چنانچہ حزبِ اختلاف کا خود پر موجود حکومتی دباو¿ ہٹانے کےلئے عوامی سطح پر تحریک شروع کرنے کا فیصلہ درست ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ پی ڈی ایم تحریک کا پہلا مرحلہ عوامی رابطہ تھا جس کے تحت چاروں صوبوں میں قریب بیس جلسے کئے گئے۔ تحریک کا یہ مرحلہ کامیاب رہا کیونکہ جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور حزبِ اختلاف کے رہنماو¿ں کی تقریروں میں بالعموم عوامی جذبات کی گونج بھی سنائی دی۔ اگرچہ چاروں صوبوں میں ہونے والی پہلی پانچ ریلیوں نے تحریک کو اوپر اٹھانے میں کافی مدد فراہم کی لیکن دسمبر کی نہایت سرد اور بھیگی شام کو ہونے والا لاہور جلسہ توقعات پر پورا نہ اتر سکا اور چند تبصرہ نگاروں کے مطابق اسی جلسے نے تحریک کو بٹھا دیا۔ لاہور میں ریلی کا وقت حالانکہ سہہ پہر دو بجے تھا لیکن حزبِ اختلاف قیادت غروبِ آفتاب کے بعد جلسہ گاہ پہنچی اور ایک طرف جہاں لوگ ٹھٹھرتی سردی میں جلسے کے آغاز کا انتظار کر رہے تھے وہیں دوسری طرف ٹی وی چینلوں نے مقامی رہنماو¿ں کی جانب سے پی ڈی ایم قیادت کو دیئے گئے شاندار پرتکلف ظہرانے کے مناظر بھی دکھائے۔ عوامی رابطہ مہم کا اختتام ملک کے مختلف حصوں سے اسلام آباد تک ہونےوالے لانگ مارچ کی صورت میں ہونا تھا۔ سب سے پہلے جنوری دوہزار اکیس میں لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو ایسی سرگرمی کے لئے یقینا ٹھیک وقت نہیں تھا کیونکہ شرکا کو اسلام آباد کے بے رحم سرد موسم میں دھرنا دینا تھا۔ جنوری میں لانگ مارچ کرنے کا مقصد شاید یہ تھا کہ تحریک انصاف حکومت کو مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی گھر بھیج دیا جائے کیونکہ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس الیکشن کے بعد تحریک کو اہم کامیابیاں ملیں گی اور وہ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی۔ مجوزہ لانگ مارچ کے حوالے سے ابہام پایا گیا۔ مسلم لیگ (نواز) اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) جیسی کچھ جماعتوں کے مطابق لانگ مارچ کے بعد دھرنا دیا جانا تھا لیکن کوئی بھی یہ واضح طور پر نہیں جانتا تھا کہ دھرنا کتنے وقت تک جاری رہے گا یا رکھنا چاہئے تاہم پیپلزپارٹی دھرنے کی مخالف دکھائی دی اور یہ کہا گیا کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (نواز) جیسی دیگر جماعتوں کے ساتھ سال دوہزارچودہ میں تحریک انصاف کے اسی طرح کے دھرنے کی مخالفت کی تھی۔ بعدازاں کمزور منصوبہ بندی ظاہر کرتے ہوئے لانگ مارچ کو مارچ تک ملتوی کردیا گیا مگر سب سے زیادہ بدانتظامی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے معاملے پر دکھائی دی۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ سینیٹ الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے اور پی ٹی آئی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کےلئے استعفوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (نواز) بھی ان کے ساتھ متفق نظر آئی تاہم بعدازاں پیپلزپارٹی اور اس کے وکلا نے پی ڈی ایم قیادت کو قائل کرلیا کہ اسمبلیوں سے استعفوں سے سینیٹ الیکشن کے ٹائم ٹیبل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ (نواز) کے مو¿قف نے پی ڈی ایم میں شامل زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے کمزور ہوم ورک کو ظاہر کیا کیونکہ الیکشن ایکٹ دوہزارسترہ کے مطابق اسمبلیوں میں کسی بھی خالی نشست سے سینیٹ الیکشن کی قانونی حیثیت متاثر نہیں ہوگی۔ گزشتہ ماہ سولہ مارچ کو جب پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں چھبیس مارچ کو ہونے والے لانگ مارچ کی تیاریوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو پیپلزپارٹی کے علاوہ تمام دیگر جماعتوں نے لانگ مارچ کے دوران اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی حمایت کی۔ پیپلزپارٹی راضی نہیں ہوئی کہ جسے سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کو داو¿ پر لگانا پڑجاتا۔ یوں نہ صرف لانگ مارچ کو غیر معینہ مدت تک کےلئے ملتوی کردیا گیا بلکہ پی ڈی ایم کی صفوں میں موجود اتحاد کو بھی دھچکا پہنچا۔ یہ ایک غیر حقیقی سوچ تھی کہ پیپلزپارٹی استعفوں کے معاملے پر دیگر جماعتوں کے مو¿قف پر متفق ہوگی کیونکہ اس طرح کے اتحادوں میں فیصلے اکثریتی ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ باہمی اتفاقِ رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کےلئے دیگر جماعتوں کی اس منطق کو سمجھنا مشکل تھا کہ استعفوں سے تحریک انصاف حکومت کے زوال کی راہ ہموار ہوجائےگی۔ پی ڈی ایم کے سات نکاتی ایکشن پلان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانےکی کوششوں سمیت قانون ساز اداروں کے اندر بیٹھ کر جدوجہد کرنے کا تذکرہ بھی شامل تھا مگر تحریک کے اس پہلو کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ عوامی ریلیوں اور مارچوں کا انعقاد احتجاج اور لوگوں کو متحرک کرنے کا جائز جمہوری طریقہ کار ہے مگر اس وقت چونکہ ملک میں کورونا کیسوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا موجودہ حالات اس طرح کی سرگرمیوں کےلئے شاید سازگار ثابت نہ ہوں۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے ایک بڑے بلاک کی موجودگی جبکہ سینیٹ اور سندھ میں اکثریت کی مدد سے حزبِ اختلاف کا بہتر انداز میں منظم اتحاد حکومت کو قابو میں رکھنے کےلئے مو¿ثر کردار ادا کرسکتا ہے اور جمہوریت کا حسن و کام کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ حزب اختلاف اپنی موجودگی کا احساس پارلیمان کے اندر دلائے اور اصلاح احوال کےلئے زیادہ مثبت و منطقی کردار ادا کرے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: احمد بلال محبوب۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)