کورونا وبا کی جاری تیسری لہر سے معالجین اور والدین یکساں پریشان ہیں کیونکہ چھبیس فروری دوہزاربیس سے پاکستان میں کورونا کے جتنے بھی کیسیز سامنے آئے اُن سے یہ ایک بات ظاہر تھی کہ اِس مرض سے بچے متاثر نہیں ہوتے لیکن تیسری لہر میں ایسا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اور معالجین سماجی فاصلہ اور دیگر احتیاطی تدابیر (کورونا ایس اُو پیز) پر پہلے سے زیادہ عمل کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تاکہ اِس وبا سے بچوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ڈاکٹروں کی تشویش کا ایک پہلو یہ حقیقت بھی ہے تاحال بچوں کیلئے ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ہے البتہ تحقیق جاری ہے۔شدید بخار کی علامات رکھنے والے بچوں میں ابتداً عموماً ”ڈبل نمونیہ“ تشخیص ہوتا ہے‘ جس سے اُن کے پھیپھڑے شدید متاثر ہوتے ہیں تاہم کئی کیسیز میں جب ایسے بچوں کے کورونا ٹیسٹ کئے گئے تو وہ مثبت آئے ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ کم عمری کے باعث بچوں میں کورونا وائرس کی تشخیص میں نسبتاً زیادہ وقت لگتا ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں بیس ہزار بچے کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور یہ تعداد وہ ہے جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں سے رجوع کیا جبکہ اصل تعداد کے بارے میں ڈاکٹر محتاط اعدادوشمار بھی نہیں دیتے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا وبا کی تیسری لہر کافی بڑی تعداد میں بچے متاثر ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اکثر والدین کے ذہنوں میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ بچوں میں کورونا وائرس کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟ معالجین کہتے ہیں کہ جب سے یہ وائرس پاکستان آیا ہے تب سے اب تک سینکڑوں بچے اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن کیونکہ تیسری لہر میں وائرس کا پھیلاؤ زیادہ نظر آ رہا ہے تو اسی تناسب سے بچے بھی بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کا کہنا ہے کہ اُن کے ہاں زیرعلاج دو نو مولود بچے ایسے ہیں جن میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے! پمز کی جانب سے یہ بات ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کہی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ بچوں میں کورونا وائرس کا ہونا کوئی نئی بات نہیں بلکہ بچوں میں شروع سے ہی اس وائرس کی موجودگی کی اطلاعات تھیں اور بچے بھی اسی طرح اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ بڑی عمر کے افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں البتہ بچوں میں کورونا وائرس کی اتنی شدت نہیں ہوتی اور علامات بھی اتنی سنگین نہیں ہوتیں لیکن بچوں کی وجہ سے دیگر افراد کے وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں یعنی بچے وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ محمکہ صحت پنجاب کے مطابق گذشتہ سال مارچ میں 75بچے کورونا سے متاثر ہوئے اور چند ماہ میں یعنی جون دوہزاربیس میں یہ تعداد اٹھائیس سو زیادہ ہو گئی تھی مگر اس کے بعد اس تعداد میں کمی واقع ہوئی لیکن رواں برس (دوہزاراکیس) مارچ میں کورونا وائرس کے متاثرہ بچوں کی تعداد 4830 تک پہنچ گئی‘ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچوں پر اس وائرس کے اثرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جس طرح بڑوں میں وائرس کی علامات ہوتی ہیں ویسے ہی بچوں میں بھی بیماری کی علامات سامنے آتی ہیں جیسے کھانسی‘ بخار‘ زکام تھکاوٹ اور جسم میں درد محسوس ہونا مگر بچوں میں اس وائرس کی شدت کم نظر آتی ہے لیکن ایک جانب اگر اِن ڈاکٹروں کی بات کو مان لیا جائے تو دوسری طرف ایسے کئی متاثرہ بچے بھی سامنے آئے ہیں جن میں اس وائرس کی شدت کہیں زیادہ تھی اور انہیں زندگی بچانے کے لئے وینٹی لیٹرز (مصنوعی آلات تنفس) کی مدد سے علاج کے مراحل سے گزارہ گیا۔ اب تک کم سے کم ایسے 2 کیسز آئے ہیں جن میں بچوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہو گئی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک بچے کو پھیپھڑوں کا مرض پہلے ہی سے لاحق تھا اور دوسرے کو سرطان (کینسر) تھا۔ اب جو بچوں میں وائرس پھیلا ہے تو اس کی دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں برطانیہ سے آنے والے وائرس کی ہیئت ہو سکتی ہے لیکن اس بارے میں وہ وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور کے ڈاکٹروں نے بچوں پر وائرس کے حملے کے اثرات پر ایک تحقیق کی ہے جس میں تیئس فیصد بچے ایسے پائے گئے ہیں جنہیں کورونا وائرس لاحق ہوا لیکن نہ تو انہوں نے اس کے لئے کوئی ٹیسٹ کرائے اور نہ ہی انہیں کوئی شدید عارضہ لاحق ہوا۔ یہ تحقیق ڈاکٹر عارف اور ڈاکٹر یاسر محمود نے مل کر کی اور اس تحقیق کے لئے انہوں نے ضلع صوابی کی 54 یونین کونسلز میں سے ڈھائی سو بچوں کے نمونے حاصل کئے تھے۔ بچوں میں یہ علامات زیادہ شدت سے سامنے نہیں آتیں اس لئے اکثر بچوں پر اس وائرس کا حملہ ہوتا بھی ہے تو انہیں اس کا زیادہ احساس یا علم نہیں ہوتا۔ کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں اگر دیگر کسی بیماری کی علامات ہوں تو ان بچوں پر اس وائرس کا حملہ پھر شدید ہو سکتا ہے۔ اُن کی تحقیق کے مطابق بچے یہ وائرس لے جا سکتے ہیں اور ان بچوں سے دیگر افراد خاص طور پر بڑی عمر کے لوگ زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ کورونا وبا کی جاری تیسری لہر میں متاثرہ بچے اپنی جگہ لیکن اِن بچوں کا وائرس دوسروں کو منتقل کرنا باعث تشویش ہے کہ کورونا وائرس اکثر بچوں کو زیادہ پریشان نہیں کرتا اور اُن میں مرض کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن وہ اپنے گردوپیش میں دیگر بچوں اور بڑوں کو متاثر کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ بچے ہوں یا بڑے‘ کورونا وبا سے احتیاط ہی میں سمجھ داری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر واسع علیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)