فوجی قوت کا مظاہرہ یا جنگ کے لئے تیاری؟ مارچ کے وسط سے یوکرائن اور متعدد مغربی حکومتوں نے کئی تنبیہات جاری کی ہیں کہ روس میں ضم شدہ کریمیا میں بڑے پیمانے پر روسی دستے پہنچ چکے ہیں اور انہیں مشرقی یوکرائن کے متنازع علاقے کے گرد بھی تعینات کیا گیا ہے۔ ایسے میں بظاہر روس کے ارادے واضح معلوم ہوتے ہیں لیکن کیا جنگ ہونے والی ہے اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا روس یواکرئن میں مداخلت کرنے جا رہا ہے؟ متعدد ذرائع ابلاغ نے یوکرائن کی مشرقی سرحد اور کریمیا میں روسی فوجی دستوں کی نقل و حرکت کی تصدیق کی ہے۔ مارچ دوہزارچودہ میں روسی افواج نے کریمیا کو روس میں ضم کر دیا تھا۔ ایسی کئی اطلاعات ٹوئٹر پر بھی آئی ہیں۔ جینز انٹیلی جنس نامی تنظیم نے وہاں اسکندر شارٹ رینج میزائل کی نشاندہی کی ہے۔ کریملن نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں دیں کہ ان سرگرمیوں میں کون سے یونٹس ملوث ہیں۔ صدر ولادیمیر پوٹن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ”روسی علاقوں میں فوجی دستوں کی نقل و حرکت ’اندرونی معاملہ‘ ہے جو کسی کی تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ دستے‘ جن میں کریمیا میں موجود یونٹس شامل ہیں‘ فوجی مشقیں کر رہے ہیں“ اور ساتھ ہی انہوں نے یوکرائن پر اشتعال انگیزی کا الزام بھی لگایا۔ دوسری طرف یوکرائن کے انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اضافی دستوں میں ٹیکٹیکل گروپس کی سولہ بٹالین شامل ہیں جن میں چودہ ہزار فوجی ہوسکتے ہیں۔ یوکرائن کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر قریب چالیس ہزار روسی فوجی اُس کی مشرقی سرحد پر موجود ہیں جبکہ کریمیا میں بھی ان کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہے۔ تو کیا یہ دستے یوکرائن میں مداخلت کیلئے تعینات کئے گئے ہیں؟ یہ ممکن ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے پیمانے پر مداخلت کا امکان کم ہے۔ دراندازی روس کا آزمایا ہوا اور پُراعتماد طریقہ ہے۔ روس کے خصوصی دستے سال 2014ء میں کریمیا پر قابض ہوئے تھے۔ ان میں نقاب پوش فوجی شامل تھے جنہوں نے سبز رنگ کے یونیفارم پہن رکھے تھے‘ اسی لئے اُنہیں ”لیٹل گرین مین“ بھی کہا جاتا ہے۔ یوکرائن‘ نیٹو اور مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسندوں کے زیر انتظام مشرقی یوکرائن میں روس کے باقاعدہ یونٹ اور بڑے جنگی ہتھیار موجود رہتے ہیں۔ کریملن ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور وہاں کسی بھی روسی دستے کو ’رضا کار‘ کہتا ہے۔روس اور یوکرائن کی تاریخ تنازعات کا مجموعہ ہے۔ سال 1991ء میں کمیونیزم کے خاتمے کے بعد روسی دستوں نے سابقہ سوویت یونین کے کئی علاقوں میں مداخلت کی ہے۔ ان میں چیچنیا اور دیگر قفقاز یا کاکیشیائی علاقے شامل ہیں۔ اپریل 2014ء میں روس کی جانب سے کریمیا کو ضم کئے جانے کے بعد روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ مشرقی یوکرائن کے کچھ علاقوں پرقابض ہو گئے۔ اس سے قبل مغربی ممالک کے حمایت یافتہ مظاہرین نے یوکرائن کے دارالحکومت کیف سے روسی حمایت یافتہ صدر وکٹر یانوکووچ کی حکومت گِرا دی تھی۔ ڈنباس نامی اس متنازع علاقے میں اکثریت آبادی روسی زبان بولتی ہے اور کئی رہائشیوں کے پاس روسی پاسپورٹ ہیں۔ صدر پوٹن نے کہا ہے کہ روس بیرون ملک اپنے شہریوں کا دفاع کرے گا‘ اگر ایسا لگا کہ انہیں خطرہ ہے۔ روس اور یوکرائن کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں لیکن یہ جنگ کے قریب نہیں۔ متنازع علاقوں میں فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی ہیں۔ یہ نہ تو کوئی باقاعدہ جنگ ہے اور نہ ہی سرد جنگ والا متنازع علاقہ۔ روس یہاں جی آر یو سپیشل فورسز‘ سائبر وار فیئر اور پراپیگنڈا استعمال کرتا ہے جسے ہائبرڈ وار فیئر بھی کہتے ہیں۔ گذشتہ سال امریکی کانگریس میں پیش ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں جی آر یو کے کردار کو تفصیلی طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس لڑائی میں تیرہ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ یوکرائن کا کہنا ہے کہ متنازع علاقے میں رواں سال اس کے چھبیس فوجی مارے گئے ہیں اور دوہزاربیس میں یہ کل تعداد پچاس تھی۔ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ رواں سال کم از کم ان کے بیس سے زیادہ فوجی مارے گئے ہیں۔ روس اور یوکرائن کے درمیان تعلقات میں متعدد عوامل تناؤ میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے فروری میں صدر پوٹن کے دوست اور یوکرائن کی طاقتور کاروباری شخصیت وکٹر میدویڈچک پر پابندیاں عائد کیں۔ یوکرائن نے روس کی حمایت کرنے والے تین ٹی وی سٹیشنز پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ 2015ء میں منسک امن معاہدے میں کئی شرائط پر عملدرآمد ابھی باقی ہے مثلاً علیحدگی پسندوں کے علاقے میں تاحال آزادانہ انتخابات کی نگرانی کیلئے انتظامات نہیں کئے جا سکے ہیں۔ ماضی میں بھی روس نے اپنی لڑائیوں میں ایسے دستے سرحد پار بھیجے جنہیں ’پیس کیپر‘ کہا گیا مگر وہ وہیں بس گئے۔ مثال کے طور پر ایسا مالدووا اور جنوبی اوسیٹیا میں ہوا اور ایسا اب بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں حالات روس کے حق میں ہوجائیں گے۔ کچھ افواہیں یہ بھی ہیں کہ صدر پوٹن امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو آزمانا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن نے اپنے پیشرو ٹرمپ کے مقابلے میں روس سے متعلق سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ ستمبر میں پوٹن کو پارلیمانی انتخابات کا سامنا ہوگا اور امکان ہے کہ مظاہرین بڑے پیمانے پر جیل میں قید اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کے حق میں باہر نکلیں گے۔ کریملن کی جانب سے یوکرائن میں موجود روسیوں کا دفاع ان ووٹوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر یوکرائن کے معاملے پر روس حب الوطنی کے جذبات ابھارنے میں کامیاب ہوتا ہے تو نوالنی کو مزید سختیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔یوکرائن نیٹو اتحاد کا رکن نہیں مگر نیٹو کے یوکرائن سے قریبی تعلقات ہیں اور اِنہی تعلقات کی وجہ سے یوکرائن کو مغربی ہتھیار دیئے گئے‘ جن میں امریکی جیولن انٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں۔ روس کو معلوم ہے کہ ان حالات میں یوکرائن کو مغربی ممالک سے مزید فوجی مدد مل سکتی ہے۔ یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے نیٹو پر زور دیا ہے کہ یوکرائن کو اس اتحاد کا رکن بنایا جائے لیکن لڑائی جاری ہونے کی وجہ سے نیٹو کیلئے فی الحال یہ ایک مشکل کام ہے کہ یوکرائن کو اس تیس ملکی اتحاد میں شامل کیا جائے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز سٹولنبرگ نے کہا ہے کہ نیٹو یوکرائن کی فوج کی تربیت اور مشترکہ فوجی مشقوں سے مدد کر رہا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: لورینس پیٹر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)