پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے دورہ جنوبی افریقہ کے دوران وہ کارکردگی دکھائی ہے جس کی اُس سے توقع نہیں تھی۔ اِس دورے میں کپتان بابر اعظم نے اپنے کھیل سے اُن سبھی اعتراضات کا بھرپور جواب دیدیا ہے جو اُن کی قیادت اور کھیل پر اُٹھائے جا رہے تھے لیکن ناقدین کے لئے دورہئ جنوبی افریقہ میں ’ٹیم گرین کی کارکردگی‘ ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بابر اعظم نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسا اعزاز حاصل کیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں بہت کم بلے بازوں کو ملا۔ وہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستانی تاریخ میں چوتھے بیٹسمین بنے ہیں کہ جنہوں نے عالمی رینکنگ (کھلاڑیوں کی درجہ بندی) میں پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے پہلے ظہیر عباس‘ جاوید میانداد اور یوسف ایسے بلے باز تھے کہ جنہیں یہ اعزاز ملا کہ وہ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں پہلے درجے پر فائز ہوئے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں رینکنگ کا باضابطہ آغاز 1998ء میں ہوا تھا یعنی باضابطہ طور پر تو یوسف ہی تھے جو 2003ء میں ورلڈ نمبر وَن بیٹسمین بنے۔ باقی کو حساب کتاب کے ذریعے بعد میں اپنے زمانے کا نمبر ایک بلے باز قرار دیا گیا۔ بابر اعظم کے اس کارنامے کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ون ڈے میں بھارتی کپتان ویرات کوہلی کی طویل بادشاہت کا خاتمہ کیا ہے جو ساڑھے تین سال سے جاری تھی۔ ایک ایسے بیٹسمین کہ جن کے عظیم ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ دنیا کا کوئی بلے باز اکتالیس مہینوں تک ویرات کو اس مقام سے نیچے نہیں اتار پایا اور ایسا کرنے کیلئے بھی مستقل اور بھرپور کارکردگی کی ضرورت تھی جو بابر اعظم نے خوب دکھائی۔ گزشتہ دو سال میں بابر نے اکیس ون ڈے میچوں میں تقریباً اکتہر کی اوسط اور ستانوے سے زیادہ کے سٹرائیک ریٹ سے 1346رنز بنائے‘جن میں پانچ سنچریاں اور سات نصف سنچریاں شامل تھیں۔ جنوبی افریقہ میں انہوں نے پہلے ون ڈے میں ایک سو تین اور آخری میں چورانوے رنز بناکر سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔پاکستان کے کرکٹ شائقین کی اکثریت کے لئے بابر اعظم اُس وقت ”عظیم ترین بلے باز“ کہلائیں گے جب وہ بھارت کے خلاف ورلڈ کپ کے کسی ناک آؤٹ مقابلے میں آخری چھ گیندوں پر چھ چھکے لگاکر میچ جتوائیں گے۔ پاکستان کرکٹ سے متعلق ایک طبقہ ہمیشہ ایسا موجود رہتا ہے جو کھیل کے ساتھ سیاست بھی کرتا ہے اور جس کا کام تنقید برائے تنقید ہوتا ہے یا پھر وہ اپنے تیر و نشتر تیز کئے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ جہاں موقع ملے اور وار کردیا جائے۔ بات چاہے سیاست کی ہو یا کھیل کی‘ فارمولا سادہ سا ہوتا ہے کہ کسی ایک خرابی کو پکڑ کر اگلی پچھلی تمام خدمات کو صفر سے ضرب دے کر نتیجہ صفر نکال دیا جائے۔ ماضی قریب میں اس کی بڑی مثال سابق کپتان مصباح الحق کی تھی۔ دنیا میں وہ کون سی‘بُرائی‘ تھی جو مصباح میں نہیں تھی۔ اُسے سست کہا گیا۔ اُس کے رویئے کو غلط کہا گیا۔ اُسے قیادت کیلئے نااہل کہا گیا۔ اُسے جدید کرکٹ سے نابلد کہا گیا۔ حتی کہ اُسے بدصورت کہا گیا کہ اُس کے بال لمبے نہیں‘ بولنے کا انداز ٹھیک نہیں وغیرہ لیکن عین اس وقت جب اِس قسم کی بے معنی تنقید ہو رہی تھی مصباح ملک سے باہر ایک ٹوٹی پھوٹی‘ شکست خوردہ ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کرنے کامیاب ہو گیا۔ ایک ایسی ٹیم کا قائد جسے اپنے میدانوں پر کھیلنے تک کا موقع نہیں مل رہا تھا اور وہ دنیا کی بہترین ٹیموں کو ان کے ملکوں میں شکست دے کر آ رہی تھی لیکن پھر بھی مصباح کے دامن میں صرف تنقید ہی آتی تھی۔ مزید پیچھے جائیں تو یہ داستان مزید طول پکڑ لیتی ہے۔ شاہد آفریدی کے دور میں‘کپتان تو جی بس یونس خان تھا‘ جیسے جملے سننے کو ملتے تھے۔ یونس کے عہد میں انہیں ’غیر سنجیدہ‘ قرار دیتے ہوئے انضمام الحق کے قائدانہ انداز کی تعریفیں ہوئیں لیکن یہی لوگ انضمام کے عہد میں معین خان کے ’جارحانہ انداز‘ کو یاد کرتے ہوئے ’انضی‘ کو زد پر رکھتے تھے۔ ایسے ہی ’ناقدین‘ کے لئے وقار یونس کے زمانے میں وسیم اکرم بہتر کپتان تھے‘ وسیم اکرم کے دور میں ’سٹریٹ فائٹر‘ جاوید میانداد اور ان کے دور میں عمران خان ’عظیم ترین کپتان‘ تھے۔ بس تو بابر اعظم کو بھی اسی ’گھن چکر‘ کا سامنا ہے۔ قیادت ان کے ہاتھ میں ہے تو انہیں بھی گاہے بہ گاہے ایسی ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آئندہ بھی کرنا ہوگا‘ جب تک کہ وہ دنیائے کرکٹ کو باعزت انداز میں خیرباد نہ کہہ جائیں۔ اس لئے بابر کو بسوں کے پیچھے لکھے اصول ”پاس کر ورنہ برداشت کر“ پر عمل کرنا پڑے گا بالکل اُسی طرح جس طرح کے اُن کے ہیڈ کوچ مصباح الحق ایک عرصے تک تنقید برداشت کرتے رہے اور تنقید کو خاطر میں نہ لا کر اُنہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو اُس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں پوری قوم کی ٹیم گرین سے صرف جیت ہی کی نہیں بلکہ اچھے کھیل کی توقعات بھی وابستہ ہو گئی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ارشد وقار۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)