مسلمہ امر ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔ اِس سلسلے میں ایک عالمی مطالعہ رپورٹ لائق توجہ ہے جس سال 1960ء سے 2004ء کے درمیانی عرصے میں 169 ممالک میں سیاسی استحکام اُور معیشت و اقتصادی امور کا جائزہ لیا گیا اور ثابت ہوا ہے جن ممالک میں لوگ سیاسی طور پر زیادہ مطمئن تھے وہاں قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو غیرمعمولی طور پر زیادہ رہی اور اِس میں اضافہ بھی ہوا۔ مذکورہ مطالعے میں پاکستان بھی شامل تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے مختلف سیاسی ادوار کو فہرست کیا گیا۔1947ء سے 1958ء: وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کے بعد محمد علی بوگرہ نے اُن کی جگہ لے لی۔ بوگرہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ بوگرہ پاکستان کے صدر جبکہ چار گورنرز جنرل نے اقتدار سنبھال لیا۔ اِس عرصے (1947 سے1958) تک پاکستان میں اقتصادی ترقی کم یعنی تین فیصد رہی۔1958ء سے 1969ء: جنرل ایوب خان کے گیارہ سال اقتدار میں سیاسی استحکام بحال کرنے کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور یہی وجہ ہے ساٹھ کی دہائی کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’گولڈن سکسٹیز‘ کہا جاتا ہے۔ اِس عرصے میں چونکہ سیاسی استحکام کا دور دورہ تھا اِس لئے سال 1965ء میں اقتصادی ترقی تین فیصد سے بڑھ کر 10.42فیصد تک جا پہنچی جبکہ 1970ء میں 11.35 فیصد جیسی بلند سطح پر بھی رہی۔ 1968ء میں افراط زر (مہنگائی) کی سطح 0.171فیصد تھی۔ سیاسی استحکام کی وجہ سے صنعتکاری کے عمل میں تیزی آئی۔ زرعی انقلاب آیا اور نتیجہ غیرمعمولی طورپر بلند اقتصادی ترقی اور مہنگائی میں کمی کی صورت سامنے آیا۔1971ء سے 1977ء: ذوالفقار علی بھٹو نے ’نیشنل لائزایشن‘ کی پالیسی متعارف کروائی اور تمام صنعتوں کو حکومت نے قبضے میں لے لیا۔ جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی گیارہ فیصد سے بلند ہو چکی تھی کم ہو کر دوبارہ تین فیصد تک آگئی۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان کے وقت سال 1947ء میں مہنگائی کی شرح 26.6فیصد تھی جو پاکستان کی تاریخ میں مہنگائی کی سب سے بلند شرح ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ جہاں کہیں اقتصادی ترقی (شرح نمو) کم ہوتی ہے وہاں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔1977ء سے 1988ء: جنرل ضیاالحق کے گیارہ سالہ اقتدار میں 1980ء کے مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی ملکی تاریخ کی دوسری بلند ترین سطح یعنی 10.2 فیصد تک جا پہنچی جبکہ سال 1986ء میں مہنگائی کی شرح 3.5فیصد رہی۔ اِس کا مطلب ہے کہ سیاسی استحکام کے سبب نہ صرف اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مہنگائی میں بھی کمی آتی ہے۔1988ء سے 1999ء: بینظیر بھٹو (پہلی مرتبہ)‘ غلام مصطفی جتوئی‘ نواز شریف (پہلی مرتبہ)‘ بلخ شیر مزاری‘ نواز شریف (دوسری مرتبہ)‘ معین قریشی‘ بینظیر بھٹو (دوسری مرتبہ)‘ معراج خالد اور نواز شریف (تیسری مرتبہ) اقتدار میں رہے۔ تصور کریں کہ اِس 11 سالہ دور میں 9 وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ 1997ء تک پاکستان کی اقتصادی ترقی 1 فیصد جیسی کم ترین شرح نمو پر تھی جبکہ مہنگائی کی شرح 12فیصد تھی۔1999ء سے 2007ء: جنرل پرویز مشرف کے 8 سالہ دور اقتدار میں سیاسی استحکام بحال ہوا اور ملک کی اقتصادی ترقی سال 2003ء میں 7.5فیصد رہی۔ جس کے نتیجے میں دیکھا گیا کہ سال 2004ء میں مہنگائی کی شرح 2.9 فیصد تھی اور سال 2005ء میں سب سے زیادہ یعنی 9 فیصد تک پہنچی۔2007ء سے تاحال: محمد میاں سومرو‘ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ میر ہزار خان‘ نواز شریف (چوتھی مرتبہ)‘ شاہد خاقان عباسی اور عمران خان اقتدار میں رہے۔ یہ عرصہ سیاسی استحکام لانے کا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے سیاسی انتقام کا رہا جس میں ہر سیاسی فریق کی کوشش رہی کہ وہ دوسرے کو نیچا دکھائے۔ سال 2008ء میں مہنگائی کی شرح 20فیصد (سب سے زیادہ) جبکہ اقتصادی ترقی 5.8فیصد تھی لیکن سال 2020ء میں اقتصادی ترقی جو مثبت تھی منفی 0.4فیصد تک کم ہو گئی اور ایسا 68 برس میں (1952ء) کے بعد پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا۔پلان بی: پاکستان کی تاریخ اور عالمی مطالعے سے ثابت ہے کہ کوئی ملک اُس وقت تک اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہاں مہنگائی کی شرح کم ہو سکتی جب تک کہ وہاں سیاسی استحکام کا دور دورہ نہ ہو۔ پاکستان کی ضرورت انتہائی درجے کے سیاسی استحکام کی ہے جس کے بعد شرح نمو میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہوتی چلی جائے گی لیکن فی الوقت جن تین محرکات نے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے اُن میں سرفہرست سیاسی عدم استحکام‘ مہنگائی کی بلند شرح اور کم اقتصادی شرح نمو شامل ہیں۔ پاکستان کی ضرورت ایک ایسی حکومت کی ہے جو سیاسی استحکام لائے اور صرف سیاست برائے سیاست نہ کی جائے جس میں مخالفین کو نیچا دکھایا جاتا ہے اور حزب اختلاف کے وجود اور ضرورت سے انکار کیا جاتا ہے اِس سلسلے میں سیاسی تصادم سے اجتناب کرتے ہوئے اقتصادی ترقی میں اضافے اور مہنگائی میں کمی لانے کیلئے حکومت و حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام