متبادل راستے

 آئی ایم ایف کے عملے کی سطح کی رپورٹ میں مالیاتی ادارے کے ساتھ کئے گئے حکومتی وعدوں کی فہرست شامل ہے جبکہ سٹریٹجی پیپر میں آئندہ بجٹ میں حکومتی لائحہ عمل کا خلاصہ بھی موجود ہے۔ اگر دونوں دستاویزات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان میں غیر معمولی تضادات پائے جاتے ہیں جو ایک معمولی کہانی بیان کرتے ہیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ حفیظ شیخ کی جگہ لینے والے نئے وزیرِ خزانہ کے ارادے و مقاصد کیا ہوں گے؟ حماد اظہر آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ کی گئی اپنی گفتگو میں اپنے ارادوں اور مقاصد کا اظہار کرچکے ہیں۔ مالیاتی ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کا ایک ٹوئیٹ میں کہنا تھا کہ گفتگو میں اہم اقتصادی اصلاحات کے لائحہ عمل کے ساتھ آئندہ مہینوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ملک کو مطلوبہ بیرونی فنانسنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اہداف میں نرمی بلکہ اضافی سپورٹ بھی طلب کر رہے ہیں۔ اگر بجٹ سٹریٹجی پیپر میں شامل اہداف کا چند ہفتے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اہداف سے موازنہ کیا جائے تو ہمیں چند ایک ایسے اشارے مل سکتے ہیں جن سے پتا چل سکتا ہے کہ حکومت کس نوعیت کی نرمی چاہتی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے نے اگلے سال کی پیداواری شرح کا تخمینہ چار فیصد لگایا تھا جبکہ سٹریٹجی پیپر میں یہ تخمینہ چار اعشاریہ دو فیصد لگایا گیا۔ اب چونکہ مرکزی عدد میں فرق نظر آ رہا ہے اس لئے دیگر تمام اعداد و شمار میں تضادات کا ہونا تو یقینی ہے۔ یاد رہے کہ اگر مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا تخمینہ تقریباً باون کھرب روپے لگایا گیا ہے تو صفر اعشاریہ دو فیصد کے لحاظ سے ایک سو ارب روپے سے زائد کی رقم کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مالیاتی ادارے نے اگلے برس کے مالی خسارے کا تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد جبکہ حکومت نے اپنے سٹریٹجی پیپر میں چھ فیصد لگایا ہے‘ مطلب یہ کہ دونوں تخمینوں میں دوسوساٹھ ارب روپے سے زائد کی رقم کا تضاد موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس چھ فیصد کے ہدف کو پانے کےلئے صوبوں کو اگلے سال اپنا سرپلس (اضافی آمدنی) دوگنا سے بھی زیادہ بڑھانا پڑجائے گا حالانکہ ماضی میں صوبے محض بجٹ میں شامل سرپلس حاصل کرنے میں ہی دشواری کا سامنا کرچکے ہیں۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ اضافی چھ فیصد مشکلات پیدا کرے گا۔ مالیاتی ادارہ اگلے سال پرائمری بیلنس میں سرپلس رقم کا تخمینہ 143ارب روپے جبکہ سٹریٹجی پیپر میں حکومت نے اس میں خسارے کا تخمینہ اُنچاس ارب روپے لگایا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں 192ارب روپے کا فرق پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سٹریٹجی پیپر کے مطابق اگلے سال تقریباً آٹھ کھرب روپے کا مجموعی ریوینو (ٹیکسوں سے آمدن) حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے وہیں مالیاتی ادارے کے ساتھ حکومت نے آٹھ اعشاریہ آٹھ کھرب روپے کا وعدہ کیا ہوا ہے یعنی دونوں اعداد کے مابین آٹھ سو ارب روپے کا فرق بنتا ہے۔ حکومت وفاقی ترقیاتی بجٹ کی مد میں آٹھ سو ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ مالیاتی ادارے سے ترقیاتی بجٹ کی رقم چھ سو ستائیس ارب روپے مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے‘ یوں دونوں اعداد کے مابین 173ارب روپے کا تضاد موجود ہے۔ مذکورہ بالا نکات سے حکومت کی ’نئی سمت‘ آشکار ہوتی نظر آتی ہے کہ بھاری اخراجات ہوں اور تھوڑے محصولات ہوں۔ اس کے نتیجے میں خسارے بڑھیں گے‘ قرضوں کی لاگت میں45 ارب روپے تک اضافہ ہوگا اور مالیاتی ادارے سے جتنی سرکاری قرضے کی رقم طے کی گئی ہے اس کے مقابلے میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر اضافے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ کسی حد تک ان اضافی اخراجات اور محدود ٹیکسوں کے مالی بوجھ کےلئے قرض لینا پڑے گا۔ حفیظ شیخ کے آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں اور سٹریٹجی پیپر میں نمایاں تضادات نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت اپنے بجٹ خسارے اور قرض میں کمی لانے کے اہداف میں نرمی لانے کے ساتھ ساتھ دفاعی اخراجات میں کٹوتی کرتے ہوئے ترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ذریعے اپنے لئے گنجائش پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو (گزشتہ اپریل سے اب تک کے مختصر وقفے کے بعد) اس ایڈجسٹمنٹ کی تکلیف محسوس ہو رہی ہے جو انہیں مجبوراً کرنی پڑی ہے اور اب وہ اپنے پارٹی کے قانون سازوں کے انتخابی مقاصد کی ڈوبتی نیّا کو پار لگانے کےلئے پیسے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بے پناہ بے روزگاری‘ مہنگائی اور جمود زدہ (یا گھٹتی) اجرت کی وجہ سے عوام کو درپیش تکالیف کم کرنے کی غرض سے حکمراں جماعت کے اندرونی عناصر وزیرِاعظم پر زیادہ اقدامات کرنے کےلئے دباو¿ ڈال رہے ہیں تاہم وسائل محدود ہیں اور وزیرِاعظم کو اخراجات سے روکنے والی رکاوٹیں بہت مضبوط ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)