اقتصادی بہتری کا اشاریہ۔۔۔۔

موٹر گاڑیوں کی خرید میں اضافہ ملک میں اقتصادی بہتری کا ایک ایسا اشاریہ ہے‘ جس سے مختلف شعبوں کی کارکردگی کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے لیکن حیران کن طور پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آ رہا ہے جب پاکستان کی معیشت زیادہ بہتر حالت میں نہیں اور مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے عام افراد شدید متاثر دکھائی دے رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں گاڑیوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں گاڑیوں کی فروخت میں 37فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔گاڑیوں کی فروخت میں اس قدر اضافہ اس لئے بھی حیران کن ہے کہ پاکستان میں اس وقت گاڑیاں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت مہنگی سمجھی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ معیشت‘ کاروبار اور گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ معیشت کے ایک خاص شعبے میں ترقی کی نشاندہی تو کرتا ہے تاہم یہ معیشت کی مجموعی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتاپاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی تنظیم پاکستان آٹو میٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کاروں کی فروخت میں موجودہ مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں 37فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سٹاک مارکیٹ اور معیشت کے دوسرے شعبوں پر کام کرنے والے ادارے ٹاپ لائن کی ریسرچ کے مطابق لکی موٹرز (جو پاما کا رکن نہیں) اس کی کاروں کی فروخت میں چھیالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نئی کمپنی ہنڈائی نشاط نے بھی مارچ کے مہینے میں 723گاڑیاں فروخت کیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاک سوزوکی کی نو مہینوں میں فروخت میں تیرہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ٹویوٹا کار بیچنے والی انڈس موٹرز کی فروخت میں زیر جائزہ عرصے میں انہتر فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا‘ تو ہنڈا کار کمپنی کی کاروں کی فروخت میں چوون فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا پاکستان میں ساٹھ سے پینسٹھ فیصد گاڑیاں بینک فنانسگ کے ذریعے خریدی جاتی ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب مرکزی بینک نے شرح سود کم کیا تو اس کا ایک فائدہ آٹو سیکٹر کو بھی ہوا جہاں بینک فناننسگ کے ذریعے زیادہ تر کام کیا جاتا ہے پاکستان میں اس وقت گاڑیوں کی قیمتیں بہت اوپر چلی گئی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مہنگی گاڑیاں کون خرید رہا ہے‘ اِن میں تین طبقات شامل ہیں۔ ایک تو سرمایہ کاری کرنے والے افراد جو اس کی فروخت بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں‘ جو پانچ دس گاڑیوں کی بکنگ کرا کر وہ منافع پر اسے آگے بیچ رہے ہیں۔ دوسرا طبقہ بزنس مینوں اور صنعت کاروں کا ہے جو بڑی لگژری گاڑیوں ایس یو ویز کی خریداری میں بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہا ہے اور تیسرا طبقہ پاکستان کا کاروباری شعبہ ہے جو اپنے ملازمین کو گاڑیاں دے رہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ ٹیکسٹائل اور معیشت کے کچھ دیگر شعبے بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں اور اچھا منافع کما رہے ہیں جسی کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو گاڑیاں بھی فراہم کر رہے ہیں جو کم شرح سود کی وجہ سے انھیں سستی پڑ رہی ہیں گاڑیوں کی فروخت میں اضافے سے یہی لگتا ہے کہ ایک خاص طبقہ اس میں شامل ہے جبکہ عام آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے ساتھ خواتین بہت زیادہ مہنگی گاڑیاں خریدنے میں کم دلچسپی دکھاتی ہیں اور درمیانے درجے کی گاڑی ہی خریدتی ہیں۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کو معیشت میں بہتری کی ایک نشانی قرار دیا ہے اور اس پر ان کا کہنا تھا کہ معیشت اپنے ٹریک پر واپس آچکی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شاکر صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)