وفاقی کابینہ میں ردوبدل ایک ایسے وقت اور ایک ایسی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کورونا وبا اور مہنگائی سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومتی معاشی ٹیم کے ایک حالیہ اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال پر غور ہوا‘ جس سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ”شوکت ترین کو پینتیس سال سے جانتا ہوں۔ شوکت خانم بورڈ آف گورنرز کا بھی حصہ رہے۔ امید ہے معاشی معاملات میں مزید استحکام کیلئے شوکت ترین بہترین منصوبہ بندی سے کام کریں گے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا اُنچاس سالہ معاشی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ معاشی مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ قومی شرح نمو کو کم سے کم چھ سے سات فیصد تک لایا جائے لیکن قومی پیداوار میں اضافہ صرف باتوں سے نہیں ہوگا۔حقیقت حال یہ ہے کہ مالی لحاظ سے آج پاکستان کو گوناگوں مشکلات درپیش ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول ماضی کی حکومتوں نے غیرضروری اور غیرترقیاتی اخراجات کیلئے قرض لئے جن کا بڑا حصہ ملکی ترقی و خوشحالی کی بجائے بدعنوانی (خردبرد) کی نذر ہوا اور آج اُن قرضوں کا بوجھ اتارنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان معاشی و اقتصادی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ اپنی حکومت کی نصف مدت کے دوران اڑھائی ارب ڈالر قرضوں اور اُن کے سود کی مد میں عالمی اداروں کو ادا کئے گئے ہیں۔ حکومت کے مطابق اسے کمزور معیشت ملی جس کو کورونا نے مزید نقصان پہنچایا۔آج پاکستان کی شرح نمو منفی سے ایک فیصد کی طرف جارہی ہے اور قرضوں کا بوجھ ایک سو ارب ڈالر سے زائد ہوچکا ہے اور اس میں بدستور اضافہ بھی جاری ہے۔ عمران خان حکومت نے معیشت کو مضبوط خطوط پر استوار کرنے کیلئے اپنی سی کوشش کیں جس میں کامیابی تو ہوئی مگر یہ سب کوششیں توقعات اور ضرورت سے کم ہیں۔ معیشت کو تیزی سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں تین وزیر خزانہ تبدیل ہو چکے ہیں۔ شوکت ترین تحریک انصاف کے اڑھائی سالہ دور میں چوتھے وزیر خزانہ بنائے گئے ہیں۔ وہ منفی سے ایک فیصد کی طرف گامزن شرح نمو کو چھ سے سات فیصد تک لانے کی بات کرتے ہیں۔ اس ہدف کے حصول کیلئے ماہر معیشت دان کی ضرورت تھی۔ بادی النظر میں شوکت ترین ایسے ہی ماہرمعیشت ہیں۔ وہ مئی دوہزارسات سے فروری دوہزارآٹھ تک نیشنل کموڈیٹی ایکس چینج لمیٹڈ کے چیئرمین جبکہ یکم اپریل دوہزارآٹھ سے تیس ستمبر دوہزارآٹھ تک سعودی پاک کمرشل بینک لمیٹڈ کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات رہے۔ چھ اکتوبر دوہزارآٹھ سے چھ اگست دوہزارنو تک وہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے مالی و اقتصادی امور رہے۔ مارچ دوہزارآٹھ سے تا حال سلک بینک کے سرپرست کی ذمہ داری بھی ادا کر رہے ہیں۔ سات اگست دوہزارنو سے اٹھائیس فروری دوہزاردس تک انہوں نے وطن عزیز کے وزیرخزانہ و اقتصادی امور کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پچیس جولائی دوہزاراُنیس سے اب تک وہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اسٹریٹجک ریفارمز اور امپلی مینٹیشن یونٹ کے رکن کے طور پر بڑا فعال کردار ادا کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں انہیں سولہ اپریل دوہزاراکیس کو ایک بار پھر پاکستان کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا تاکہ وہ پاکستانی معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو استحکام دے سکیں۔ شوکت ترین کے پیشرو حماداظہر چند روز وزیر خزانہ رہے‘ اس سے قبل حفیظ شیخ اس عہدہ پر تھے‘ ماہرین کے مطابق ان کو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے لایا گیا تھا۔ ایسے معاملات کو آگے بڑھانے کیلئے شوکت ترین کی بھی وہی حیثیت ہے مگر ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکلنا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی ترقیاتی بنک جیسے اداروں سے قرض جتنی آسانی سے مل جاتا ہے‘ اتنی ہی ان کی کڑی شرائط ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اس کے پنجہئ استبداد میں پھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔ ان اداروں سے نجات حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔ مشرف دور میں ایسا ہو چکا ہے۔ اب بھی ممکن ہے۔ قرض خواہ ادارے اپنی کڑی بلکہ ناروا شرائط بھی رکھ دیتے ہیں۔ بجلی‘ گیس مہنگی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے‘ ٹیکسوں میں اضافے کی ڈکٹیشن دی جاتی ہے جس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑ جاتا ہے۔ مالیاتی اداروں کو اپنی رقم اور سود سے غرض ہوتی ہے جس کیئے وہ کڑی شرائط رکھ کر مقروض ملکوں کو اپنے شکنجے میں کستے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسوں میں اضافے سے زیادہ ٹیکس نیٹ وسیع کرنے اور ٹیکسوں کی وصولی میں شفافیت کی ضرورت رہی ہے۔ اس طرف ہماری حکومتوں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ موجودہ حکومت معیشت کو دستاویزی شکل دینا چاہتی ہے جس سے ٹیکس وصولی میں شفافیت کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ بھی وسیع ہو جائے گا مگر معیشت مکمل طور پر دستاویزی صورت اختیار کر جاتی ہے تو بھی بہت سے سقم موجود رہیں گے۔ ٹیکس وصولیوں پر لوگوں کا دیانت دار ہونا اوّلین ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ ایسے محکموں میں دیانت داری سے کام کرتے ہیں مگر بدعنوان عناصر بھی کم نہیں۔ ایسے لوگوں کے طرز زندگی سے آسانی کے ساتھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شوکت ترین معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور ’ایف بی آر‘ سے کرپٹ عناصر کو نکالنے یا ان کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ پاکستان کے بہترین وزیر خزانہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ کورونا وبا کے منفی اثرات جاری ہیں۔ مافیاز بھی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ مہنگائی کے طوفان میں آئے روز اضافہ ہوتا رہا ہے۔ گزشتہ سال بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں۔ دفاعی بجٹ بھی گزشتہ سال کی سطح پر رہا جبکہ دفاعی امور اس میں اضافے کے متقاضی تھے۔ نئے قومی بجٹ کو مرتب کیا جارہا ہے جس کے لئے تیاریاں شروع ہیں اور اِس دوران صوبوں کے تحفظات دور کرتے ہوئے انہیں این ایف سی ایوارڈ پر متفق بھی کرنا ہے جو آسان کام نہیں۔ صوبوں کی طرف سے اپنے حصے کی ایک فیصد شرح خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے مختص کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا مگر اب کچھ صوبے یہ حصہ دینے سے گریز کررہے ہیں کیونکہ اُن کے بقول کورونا اثرات سے نمٹنے کیلئے اُنہیں فی الوقت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ بطور وزیر خزانہ شوکت ترین کیلئے ایسے بہت سے چیلنج موجود ہیں۔ جن کے بارے میں امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نئی آزمائش (ذمہ داریوں) میں سرخرو ہوں گے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر شاہد تنویر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام