غیرواضح صورتحال۔۔۔۔

کسی بھی منصوبے کے چار مراحل ہوتے ہیں اور اِس کا پہلا مرحلہ متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے (حسب ضرورت) موزوں افراد کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو آپس میں مل کر ایک ’ٹیم‘ کی صورت کام کریں۔ دوسرا مرحلہ منصوبہ بندی کا ہوتا ہے جس میں موزوں افراد مل بیٹھ کر کسی منصوبے کے خدوخال وضع کرتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ منصوبے کی تکمیل کے لئے عملی اقدامات کا آغاز ہوتا ہے جبکہ چوتھا مرحلہ تکمیل کے بعد ملنے والے نتائج کا ہوتا ہے۔ اِن چاروں مراحل پر ہونے والی فیصلہ سازی‘ غوروخوض اور چھوٹے بڑے اقدامات کو دستاویزی شکل میں مرتب بھی کیا جاتا ہے تاکہ منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں اُس سے حاصل ہونے والے تجربات کو مستقبل میں مدنظر رکھا جا سکے۔تحریک انصاف حکومت نے اپنی نصف سے زائد آئینی مدت مکمل کر لی ہے لیکن یہ پہلے مرحلے (فیز ون) سے نہیں نکل سکی ہے جو کسی کام کو کرنے کیلئے موزوں افراد کے انتخاب کا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں کس طرح اُمید کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بات آگے بڑھے گی؟ یہی وجہ ہے کہ ہمیں طرزحکمرانی کے ہر شعبے پر چھائی ہوئی غیریقینی واضح دکھائی دے رہی ہے اور ایک غیرواضح صورتحال درپیش ہے۔کسی ملک میں کام کاج کا طریقہ طے شدہ ہوتا ہے کہ اِس میں نجی شعبہ ملازمتیں اور روزگارکے مواقع پیدا کرتا ہے جبکہ حکومت عوام کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے حکمت عملیاں بناتی یا اُن میں وقت کے ساتھ حسب ضرورت اصلاحات کرتی چلی جاتی ہے۔تصور کریں کہ موجودہ وفاقی حکومت نے 32 مہینوں میں 4 وزیرخزانہ تبدیل کئے ہیں۔ 6 ایف بی آر کے سربراہ (چیئرمین) تبدیل ہوئے ہیں۔ 4 بورڈ آف انوسٹمنٹ کے سربراہ (چیئرمین) تبدیل ہوئے ہیں۔ 4 سیکرٹری کامرس تبدیل ہوئے ہیں۔ تین سیکرٹری فنانس تبدیل ہوئے ہیں اور ایس سی اِی پی (کمپنیوں و حصص مارکیٹ سے متعلقہ امور کے نگران ادارے) کے تین سربراہ (چیئرمین) تبدیل کئے گئے ہیں لیکن ایک ایسی ٹیم نہیں بنائی جا سکی جو ملک کے مالیاتی و اقتصادی امور کو حل کرنے کے لئے مختلف حکومتی اداروں اور حکمت عملی (اگر کوئی ہے تو) تو اُسے مربوط و جامع بنا سکے۔ ایسی غیرواضح صورتحال میں کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے کہ بہتری آئے گی؟برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ غیریقینی میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے دعوی کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے اِس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے محصولات کو 8.8 کھرب روپے تک (مزید) بڑھائے گی یعنی اُس عام آدمی سے مزید ٹیکس وصول کئے جائیں گے جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دباہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے بجٹ خسارہ کم کرتے ہوئے اِسے ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) کے 5.5فیصد تک لانے کا وعدہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا دعوی ہے کہ حکومت نے اِس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وفاقی ترقیاتی بجٹ 627 ارب روپے ہوگا جبکہ حکومتی سطح پر 800 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کا اعلان کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں اور بجٹ کی تیاریوں میں استعمال ہونے والے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو اِن میں 1 کھرب روپے سے زائد کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ جہاں حکومت کے فیصلوں میں تسلسل اور اطمینان نہیں ہوگا وہاں سرمایہ کاری اور کاروباری و تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ سال 2007ء کے دوران پاکستان میں ہوئی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 5.5 ارب ڈالر تھی جس میں غیرمعمولی کمی ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ  جولائی مارچ2021ء کے دوران ہونے والی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 1.395 ارب ڈالر رہا یعنی پاکستان میں ایک ایسی غیریقینی کی صورتحال ہے جس کی وجہ سے غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری نہیں ہو رہی اور جہاں سرمایہ کاری نہ ہو وہاں قرضوں پر انحصار بڑھتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ تحریک انصاف حکومت نے سال 2018ء سے لیکر 2021ء تک (مجموعی طور پر) 33ارب ڈالرکا قرض لیا جس میں 18 ارب ڈالر پرانے قرضہ جات کی اقساط ادا کرنے میں خرچ کیا گیا جبکہ 15 ارب ڈالر قرضوں کا بوجھ ملک پر لادا گیا۔ پاکستان کی غیریقینی پر مبنی موجودہ صورتحال کی وجہ سے ہر شعبہئ زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ نت نئے بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ عوام نفسیاتی دباؤ‘ خوف اور پریشانی سے دوچار ہیں! جس کا فوری اور دیرپا حل دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)