مہنگائی: زمینی حقائق 

 پاکستان میں مہنگائی کی اصل صورتحال حکومتی اعدادوشمار اور حکمرانوں کی سوچ سے کئی گنا زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شوکت ترین نے وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں بطور وفاقی وزیر سنبھالنے کے بعد جو چند کام فوری طور پر کئے اُن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اُنہوں نے ملک میں مہنگائی کی شرح کے درست تعین کیلئے مزید شہروں سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اکٹھا کرنے کی ہدایت جاری کیں تاکہ ملک میں مہنگائی کی صحیح شرح کا تعین ہو سکے۔ شوکت ترین نے ہدایات جاری کیں کہ ہول سیل اور ریٹیل سطح پر قیمتوں کی باقاعدہ نگرانی کا طریقہ کار اپنایا جائے تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں قیمتوں کے درمیان فرق کو بہتر انداز میں اکٹھا کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت اگر سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے عوام کو اپنے اپنے علاقوں سے فیڈبیک بھیجنے کا تجربہ کرے تو اِس سے بھی مہنگائی کی حقیقی تصویر اُن کے سامنے آ جائے گی۔ بہرحال بنیادی سوالات یہ ہیں کہ کیا حکومتیں اپنی مرضی کے مطابق مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرتی ہیں یا سرکاری ادارے حکومت کو خوش کرنے کیلئے اعدادوشمار مرتب کرتے ہوئے خیانت کرتے ہیں؟ ماضی کی حکومتوں میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ شرحِ نمو اور افراطِ زر کے اعداد و شمار کو حکومتوں نے اپنی مرضی کے مطابق جاری کیا جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔موجودہ ادارہ شماریات وزارت خزانہ کا ماتحت ادارہ تھا اور ماضی کے وزرائے خزانہ نے اس ادارے پر اثر انداز ہو کر اپنی مرضی کے اعداد و شمار جاری کروائے تاہم اب یہ ادارہ وزارت منصوبہ بندی کے ماتحت ہے اس لئے اس پر وزیر خزانہ اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ اعداد و شمار میں حکومتیں اپنی مرضی کا ردو بدل کرتی رہی ہیں۔ آج بھی کوئی ایسا آزاد سرکاری ادارہ نہیں کہ جو حکومت کی جانب سے جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کی تصدیق کر سکے کہ یہ صحیح ہیں یا ان میں گڑبڑ کی گئی ہے۔ ماضی میں شرحِ نمو کے اعداد و شمار کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ مہنگائی کی شرح کے تعین کا ذمہ دار ادارہ شماریات پاکستان ہے۔ جو کھلی منڈی کی قیمتیں اکٹھا کر کے فراہم کرتا ہے اور پھر اِس ڈیٹا کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح کا تعین کیا جاتا ہے۔ وزارت خزانہ کے ماتحت ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کئے جانے والے مہنگائی کے اعداد و شمار پر شکوک و شبہات اٹھتے رہے ہیں کہ حکومتیں مہنگائی کی شرح کو کم دکھانے والے اس ادارے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔معاشی ماہرین ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی شرح کے تعین کیلئے اپنائے گئے طریقہئ کار کو تو ٹھیک بتاتے ہے تاہم اس کے اطلاق پر اعتراضات اُٹھائے جاتے ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کئے جانے والے اعداد و شمار میں کتنی صداقت ہوتی ہے۔ مہنگائی کی شرح کا اندازہ تین طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک تو ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار ہیں جنہیں کنزیومر پرائس انڈیکس کہا جاتا ہے اور اس میں ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں ردوبدل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں میں ہونے والے ردوبدل کو یہ ادارہ قیمتوں کے خاص اشاریے کے تحت جاری کرتا ہے جس میں ہفتہ وار بنیادوں پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا تقابل کیا جاتا ہے۔ مہنگائی جانچنے کیلئے تیسرا طریقہ ہول سیل پرائس انڈیکس ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر ہول سیل کی سطح پر قیمتوں میں ردوبدل کو دیکھا جاتا ہے۔ ادارہئ شماریات کے تحت پاکستان کے پینتیس شہری علاقوں اور ستائیس دیہاتی علاقوں سے قیمتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں پینسٹھ مارکیٹوں اور دیہاتی علاقوں میں ستائیس مارکیٹوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ شہری علاقوں میں 356چیزوں کی قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ دیہاتی علاقوں سے 244چیزوں کی قیمتیں معلوم کیا جاتی ہیں۔ ان سب اعداد و شمار کو اکٹھا کر کے ایک اوسط نکال کر کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح وضع کی جاتی ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس یعنی ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح رواں سال مارچ میں 9.1 فیصد رہی۔ شہری علاقوں میں اس انڈیکس کے مطابق مہنگائی کی شرح 8.7 جبکہ دیہی علاقوں میں 9.5 فیصد رہی۔ اس مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں یہ شرح 8.3فیصد رہی۔گزشتہ مالی سال کے اختتام پر ملک میں مہنگائی کی شرح 10.7فیصد رہی۔ حکومت نے اس سال کے بجٹ تخمینے میں اسے ساڑھے چھ فیصد تک رکھنے کا ہدف مقرر کیا تاہم مڈ ٹرم بجٹ سٹریٹجی پیپر کے مطابق رواں سال افراطِ زر 8.7رہنے کا امکان ہے اور اسے اگلے سال مزید کم کر کے آٹھ فیصد اور اس سے اگلے سال چھ اعشاریہ آٹھ فیصد تک لایا جائے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی حالیہ دنوں میں جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح کے بلند سطح پر رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ادارہ شماریات کا مہنگائی کے کوائف اکٹھا کرنے کا طریقہ کار اصلاح و توسیع چاہتا ہے اگرچہ طریقہ کار میں خامی نہیں مگر اس کے اطلاق پر سوالات ہیں۔ مختلف شہروں اور مارکیٹ سے ڈیٹا تو اکٹھا کیا جاتا ہے تاہم جس مارکیٹ کی قیمتوں کی شرح زیادہ ہوتی ہے اسے غائب ہی کر دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح کو ایک خاص سطح تک دکھایا جا سکے۔ یہ سارا ڈیٹا ایک حکومتی ادارہ جمع کرتا ہے اور اسے جاری کرتا ہے اور پاکستان میں کوئی ایسا آزاد ادارہ نہیں جو ان کی تصدیق کر سکے اس لئے مہنگائی سے متعلق اعداد و شمار کیلئے حکومتی ادارے پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے ضرورت ایک ایسے خودمختار نجی ادارے یا تنظیم کی ہے جو مہنگائی سے متعلق سائنسی بنیادوں پر اور زیادہ وسیع پیمانے پر اعدادوشمار اکٹھا کرے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عظمت سعیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)