موسمیاتی تبدیلیاں اور علاج۔۔۔۔۔۔۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ماحولیات پر بلائے گئے ورچوئل سربراہی اجلاس میں دنیا کے چالیس ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ ان ملکوں میں سے سترہ ایسے ہیں جو دنیا میں پانچ میں سے چار حصے کی گرین ہاؤس گیس فضا میں خارج کرنے یعنی ماحولیاتی خرابیوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔ مذکورہ سربراہی اجلاس دراصل امریکہ کی جانب سے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے باعث پیدا ہونے والی خرابیوں اور غلطیوں کے ازالے کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس امریکہ کو موسمیات کے عالمی منظرنامے میں واپس لانے اور اپنے مقامی ایجنڈے کو عالمی موسمیاتی پالیسی کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرے گا۔ تحفظ ماحول کی نئی عالمی پالیسی کا بنیادی مقصد 2050ء تک گلوبل وارمنگ (زمین کی تپش) کو ڈیڑھ سنٹی ڈگری تک محدود کرنا ہے اور اِس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے‘ ابتدائی مرحلے کے طور پر2030ء تک کاربن گیسوں کے اخراج میں پچاس فیصد کمی لانے کی کوششیں کی جائیں گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے متحرک مشیر ملک امین اسلم کو اجلاس کے موافقت یا اڈاپٹیشن سے متعلق سیشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر خطے کی دیگر ریاستیں جیسے بنگلہ دیش‘ چین اور بھارت کے علاوہ عرب دنیا سے سعودی عرب کو مدعو کیا گیا۔ ان ملکوں نے تحفظ ماحول کیلئے ایسا کون سا نمایاں کام کیا ہے جو پاکستان نہیں کرسکا؟ بنگلہ دیش اس وقت کلائمیٹ ولنرایبلٹی فورم نامی اڑتالیس ملکی گروپ کی قیادت کر رہا ہے۔ اس گروپ میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی ایک ارب بیس کروڑ بنتی ہے اور یہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں پانچ فیصد کے حصہ دار ہیں چونکہ اس فورم میں شامل ممالک دنیا میں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہیں‘ اس لئے انہوں نے عالمی تپش کو ڈیڑھ سنٹی گریڈ تک محدود رکھنے کا ارادہ کیا ہے اور ہر رکن ملک نے صدی کے وسط سے پہلے تک اپنی معیشت کو نیٹ زیرو یا خالص صفر اخراج سے موافق معیشت بنانے کا عزم کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ممالک زبردست اخلاقی قوت رکھتے ہیں اور انہیں متعدد بنیادی اقدامات کیلئے حمایت بھی حاصل ہے۔ دراصل موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی مذاکرات کے میدان میں یہی اس فورم کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ایک طرف جہاں بنگلہ دیش اور پاکستان کم کاربن خارج کرنے والے ممالک میں شامل ہیں وہیں چین دنیا میں سب سے زیادہ اور بھارت تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ممالک ہیں۔  دوسری طرف  انممالک نے ہوائی اور شمسی توانائی کے شعبے میں متاثرکن کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دونوں اِن متبادل توانائی سے متعلق ٹیکنالوجی کی سب سے زیادہ پیداوار اور انہیں سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ممالک بن چکے ہیں تاہم چین اور بھارت دونوں کوئلے سے توانائی کی پیداوار کی عادت کو ابھی تک ترک نہیں کرپائے اور ایندھن کا استعمال چھوڑنے کیلئے مزید وقت چاہتے ہیں۔ چین فوسل فیول اور اس کے ساتھ ساتھ قابلِ تجدید توانائی کا سب سے بڑا سرمایہ کار اور اسے سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی عالمی عمل میں ان دونوں ممالک کی شمولیت لازمی ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آئندہ لائحہ عمل پر عالمی باہمی اتفاق رائے قائم ہوسکے۔ امریکہ کے برعکس بھارت میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات اب تک مقامی سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔ دوسری طرف چین مختلف ٹیکنالوجیوں بالخصوص برقی گاڑیوں‘توانائی کی ذخیرہ اندوزی‘ مقامی سطح پر کاربن ٹریڈنگ اور کاربن بانڈز‘ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام پر مشتمل کاربن ڈائی آکسائیڈ قابو میں لانے اور اسے ذخیرہ کرنے کے عمل سے متعلق مختلف طریقوں میں سب سے آگے ہے قابلِ تجدید توانائی کی طرف جانے سے دنیا میں فاسل فیول کی طلب میں زبردست کمی آئے گی اور اسی لئے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو بھی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔ انتظامیہ امریکی مفاداتی گروہوں کی جنگ کو مشرق وسطی کے قلب تک لے جارہی ہے۔ اگرچہ امکانی زلزلے کا مرکز دوسری جگہ منتقل کیا جاچکا ہے لیکن پاکستان سے متعلق امریکی ایجنڈے کا مرکزی نکتہ اب بھی نائن الیون سے پیدا ہونے والی ابتری کو ٹھیک کرنا ہے۔ پاکستان بھلے ہی حالیہ عالمی ماحولیاتی مجلس میں مدعو نہیں کیا گیا لیکن اس سے پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ ملک رواں سال جون میں ماحولیات کے عالمی دن کی شریک میزبانی کرے گا۔ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ عالمی توجہ حاصل کرنے کیلئے تین باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔ اول: اپنے مقصد کو عالمی مقصد کے ہم آہنگ بنانا ہوگا۔ پاکستان کو ان عالمی قوتوں کی صف میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کا کام تیزی سے انجام دینا چاہتی ہیں۔ اسی لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ عالمی تپش کو دو سنٹی گریڈ سیلسیس سنٹی گریڈ کی بجائے ڈیڑھ سیلسیس تک محدود رکھنے‘ صدی کے وسط تک خود کو کاربن نیوٹرل‘ سال دوہزارتیس تک قریب زیرو کاربن اخراج رکھنے والا ملک بنانے اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے خاتمے کی باضابطہ طور پر حمایت کرے۔ پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اپنا لائحہ عمل دنیا پر واضح کرنا چاہئے اور اسی طرح اپنے قومی مقصد کو زیرِ غور ’نیشنلی ڈیٹرمائنڈ کنٹری بیوشن‘ اور ’نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی‘ کی صورت دنیا کے سامنے لازماً رکھنا چاہئے تاکہ وہ پاکستان کی کوششوں سے آگاہ ہوں اور اِس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: علی توقیر شیخ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)