سیاست: حکومت مخالف محاذ۔۔۔۔

اراکین اسمبلی کے تحفظات دور کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی اُن سے ملاقات اپنی جگہ اہم ہے اور یہ بات بھی کہ جہانگیر ترین کے حامی پارلیمینٹرینز کے خدشات دور کرنے کیلئے وزیراعظم نے وقت مانگ لیا ہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ خدشات کب تک دور ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ نے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض کی سربراہی میں ستائیس اپریل وزیر اعظم عمران خان سے اُن کے سرکاری دفتر (وزیر اعظم ہاؤس) میں ملاقات کی اور انہیں جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف حالیہ درج ہونے والے مقدمات اور مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جبکہ یہ تحفظات ذرائع ابلاغ میں پہلے ہی نشر ہو چکے ہیں اور پوری قوم جانتی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 33 ہے، جن میں قومی اسمبلی کے 11 اور پنجاب اسمبلی کے 22 ارکان شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے ارکان میں 6 صوبائی وزیر اور ایک مشیر بھی ہیں۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مختصر بات چیت کرتے ہوئے وفد کی قیادت یا ترجمانی کرنے والے راجا ریاض کا کہنا تھا کہ ”وزیر اعظم نے یقین دلایا ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی اور وہ تفتیشی عمل کی نگرانی خود کریں گے تا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔وزیراعظم سے مذکورہ ملاقات کی کہانی خاصی دلچسپ ہے‘ جس کی معلوم ہوئی تفصیلات کے مطابق جہانگیر ترین کے حامیوں نے وزیر اعظم سے استدعا کی کہ چینی کے بحران کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے 2 ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان (جسٹس ناصر الملک اور جسٹس تصدق حسین جیلانی) کریں۔ اگر وہ نہیں مانتے تو سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج سائر علی کو اس کمیشن کی سربراہی دے دی جائے تاہم وزیر اعظم نے ان کی یہ استدعا مسترد کر دی۔ حکومتی شخصیت کے مطابق ارکان پارلیمنٹ نے شہزاد اکبر کی جہانگیر ترین کے خلاف مقدمہ کی تفتیش میں مبینہ مداخلت کے بارے میں شکایات کے انبار لگا دیئے تاہم وزیر اعظم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور صرف یہی کہا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی تحقیقات پر بھی کوئی اثر انداز نہیں ہو گا۔ تحریک انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کے حامی ارکان کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے اُن کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ وزیر اعظم نے سینیٹر علی ظفر کو اس معاملے کو دیکھنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد وہ مذکورہ ارکان پارلیمنٹ کو اس بارے میں آگاہ کریں گے۔سال دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد جہانگیر ترین نے متعدد ارکان پارلیمنٹ کو جو آزاد حیثیت میں انتخابات جیت کر آئے تھے پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروایا تھا۔ اسی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آئی تھی تاہم ملک میں چینی بحران سے متعلق تشکیل پانے والے کمیشن نے جو رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی اس میں جہانگیر ترین کی شوگر ملز کا نام بھی شامل تھا جنہوں نے پنجاب حکومت سے اربوں روپے کی رعایت (سبسڈی) لینے کے باوجود مہنگے داموں چینی فروخت کی۔  وزیر اعظم چینی کے بحران کے بعد چینی کے کاروبار سے وابستہ افراد کو مافیا کا نام دیتے رہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی طور پر بھی مافیا کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ واضح رہے کہ مرکز اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہوئی ہے اور اگر مرکز سے پاکستان تحریک انصاف کے ہم خیال گروپ کے گیارہ ارکان اور پنجاب سے بائیس ارکان حکومت سے الگ ہو جاتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور پنجاب میں  خطرہ ہوسکتاہے۔ قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کیلئے ایک اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ اسد عمر بھی شامل تھے تاہم جہانگیر ترین نے اس اعلی سطح کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کے حمایتی ارکانِ پارلیمنٹ صرف وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی جہانگیر ترین کی کھل کر مخالفت کی تھی اور گزشتہ روز جب وزیر اعظم ملتان کے دورے پر تھے تو انہوں نے جہانگیر ترین کے حامی کسی رکن کا نام لئے بغیر کہا تھا کہ وہ ’ایک طرف ہو جائیں یا اِدھر یا پھر اُدھر ہو جائیں کیونکہ وزیر اعظم احتساب کے معاملے پر کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔‘ وزیر اعظم عمران خان جہانگیر ترین کے حامی ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کیلئے تیار نہیں تھے تاہم گورنر پنجاب نے اس ضمن میں کردار ادا کیا اور وزیر اعظم کو ملاقات کیلئے آمادہ کیا تاہم ملاقات کو خاطرخواہ کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وزیراعظم کی جانب سے کسی بھی مطالبے کو نہ تو تسلیم کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی مطالبے پر کاروائی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ حکومت اِس معاملے کو وفاقی اور صوبائی بجٹ اجلاس کے بعد جبکہ جہانگیر ترین اور اُن کے حامی بجٹ اجلاس سے قبل حل دیکھنا چاہتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: وقاص صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)