سعودی عرب کے خارجہ تعلقات۔۔۔۔۔

سعودی عرب کی سوچ میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے اور بادشاہت نے دیرینہ عالمی تنازعات سے لیکر ملکی سطح پر اصلاحات متعارف کروانے تک سخت گیر مؤقف سے رجوع کر لیا ہے۔ اِسی سلسلے کی کڑی ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ بیان ہے کہ وہ ’ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہم تہران کے ساتھ اچھے اور خاص تعلقات چاہتے ہیں۔‘ ولی عہد کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور سعودی عرب کے سینئر عہدیداران کے مابین عراق میں ’خفیہ بات چیت‘ کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کے قومی چینل پر صحافی عبد اللہ المودائفر کو دیئے گئے ڈیڑھ گھنٹے کے انٹرویو میں ولی عہد نے سعودی عرب کے امریکہ‘ یمن اور ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات چیت کی۔ ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے شہزادہ سلمان سے پوچھا گیا کہ کیا دونوں ممالک تصفیہ طلب معاملات پر کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوئی کوشش کر رہے ہیں؟ ولی عہد کا کہنا تھا ’ہم نہیں چاہتے کہ ایران کی صورتحال مزید خراب ہو۔ اس کے برعکس‘ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایران ترقی کرے اور خطے اور دنیا کو خوشحالی کی طرف لے جائے۔‘ولی عہد کا کہنا تھا کہ ریاض علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اُمید ہے کہ ہم اِن مسائل کا حل نکال لیں گے اور ایران کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات استوار کریں گے جس سے تمام فریقین کو فائدہ ہو گا۔‘ اس سے قبل دیئے گئے انٹرویوز میں جب بھی ایران کی بات آئی‘ ولی عہد محمد بن سلمان کا لہجہ سخت رہا اور وہ تہران پر خطے میں عدم تحفظ بڑھانے کا الزام عائد کرتے رہے تاہم حالیہ انٹرویو ان کے لہجے میں تبدیلی کا غماز ہے۔ سعودی اور ایرانی عہدیداروں نے دوطرفہ کشیدگی کم کرنے کے لئے رواں ماہ عراق میں براہ راست بات چیت کی۔ عراق کے ایک سرکاری عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو مذاکرات کے انعقاد بارے تصدیق کی۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ دونوں حریف ممالک کے درمیان یہ مذاکرات عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمیٰ کی مدد سے بغداد میں منعقد ہوئے۔ دوسری جانب ریاض نے ان مذاکرات کی تردید کی ہے جبکہ تہران کی جانب سے مکمل خاموشی ہے اور صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ایران نے ہمیشہ سے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کا خیرمقدم کیا ہے۔ مذاکرات میں کشیدگی کم کرنے‘ یمن اور تہران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ دوہزارپندرہ کے جوہری معاہدے کی بحالی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم کے کڑے حامی تھے۔ اندرونی معاملات میں کسی دباؤ یا مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ولی عہد کا کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب کا ایک سٹریٹیجک پارٹنر ہے اور بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ریاض کو کچھ معاملات پر تھوڑا سا اختلافات ہے جنہیں حل کرنے کیلئے وہ کام کر رہے ہیں تاہم ولی عہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنے اندرونی معاملات میں کسی دباؤ یا مداخلت کو قبول نہیں کرے گا۔سعودی اور امریکی مفادات کی بات کی جائے تو بائیڈن انتظامیہ (امریکہ) کے ساتھ سعودی نوے فیصد معاملات پر متفق ہیں ان مفادات کو مستحکم بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔جن دس فیصد معاملات پر اتفاق نہیں‘ اُن کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ سعودی عرب کا کلیدی سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ سال دوہزار سترہ میں سعودی ولی عہد کا منصب سنبھالنے والے شہزادہ محمد بن سلمان‘ عملی طور پر سعودی عرب کے حکمران ہیں اور روس‘ بھارت اور چین کے ساتھ بھی بہترین شراکت داری کے خواہاں ہیں۔ یاد رہے رواں سال کے آغاز میں بائیڈن انتظامیہ نے ایک انٹلی جنس رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دوہزاراٹھارہ میں شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ سعودی ولی عہد اس منصوبے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے آئے ہیں اور انہوں نے امریکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے لڑنے والے فوجی اتحاد‘ جس کی قیادت سعودی عرب کرتا ہے‘ کی جارحانہ کاروائیوں کی حمایت سے بھی دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔ یمن کے تنازع کو سعودی عرب اور ایران کے مابین ’پراکسی وار‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی جنگ ہے۔ یمن کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’کوئی ریاست اپنی سرحدوں پر مسلح ملیشیا کا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔، اس کے ساتھ ہی انہوں نے حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر آنے پر زور دیا۔ ریاض نے گذشتہ ماہ جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی تاہم حوثیوں نے ابھی تک اسے قبول نہیں کیا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالقدیر راشد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)