تیسری آزمائش۔۔۔۔

کورونا وبا کی تیسری لہر جاری ہے جسے تیسری آزمائش کہنا چاہئے کیونکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان مشکلات کے دہانے پر کھڑا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز ریکارڈ اضافہ تشویشناک ہے۔ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی پھیلا رکھی ہے اور اس وائرس کی وجہ سے امیر ترین ممالک میں پانچ لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں چونکہ پاکستانیوں نے ماہئرمضان المبارک میں سماجی فاصلے کا خیال رکھنا ترک کر رکھا ہے اس وجہ سے حکومت نے ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کیلئے فوج تعینات کرنا پڑی۔ حکومت کا خیال ہے کہ ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے کیلئے طاقت کا استعمال بہتر طریقہ ہے۔ اس قسم کے اقدامات کیوں ضروری ہیں یہ جاننے کیلئے پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیجئے۔ بھارت میں کورونا وائرس کے ڈبل میوٹنٹ سٹرین نے مریضوں کی تعداد کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ بھارت سے دل دہلا دینے والی تصاویر سامنے آرہی ہیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات رات دن بغیر کسی وقفے کے جاری ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق لاشوں کو جلانے کیلئے لوہے کے بنے جنگلے پر رکھا جاتا ہے لیکن بغیر کسی وقفے کے لاشیں جلائے جانے سے وہ جنگلے بھی پگھلنے لگے ہیں۔ ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت کی وجہ سے آکسیجن لے جانے والے ٹینکروں کو پولیس کے حفاظتی حصار کی ضرورت پڑتی ہے۔ دہلی اور ممبئی آکسیجن کی قلت سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کیلئے آکسیجن حاصل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آکسیجن کی زیادہ سے زیادہ پیداوار بھی آکسیجن کی طلب کو پورا نہیں کرسکے گی۔ خبروں کے مطابق بلیک مارکیٹ میں آکسیجن سلینڈروں کی فروخت زوروں پر ہے اور اس کی قیمت ایک عام شہری کی قوتِ خرید سے کہیں زیادہ ہے۔کورونا وائرس کے اس بحران سے نمٹنے کی واحد صورت صرف ویکسین لگانا ہے۔ پاکستان میں حکومت نے پچاس سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کیلئے بغیر انتظار کے ویکسین لگوانے کی سہولت فراہم کی ہے جو احسن قدم ہے۔ (اس سے پہلے صرف ساٹھ سال اور اس زائد عمر کے افراد کو یہ سہولت حاصل تھی)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد کو خود کو رجسٹر کروانے کے بعد تاریخ اور کوڈ موصول ہونے کا انتظار نہیں کرنا ہوگا بلکہ وہ براہِ راست کسی بھی ویکسینیشن سنٹرجاکر ویکسین لگوا سکیں گے۔ حکومت اب چالیس سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کی ویکسینیشن شروع کرنے والی ہے۔ کئی پاکستانی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین سے درآمد شدہ سائنو فارم ویکسین لگوائیں گے‘ جس کے دو ڈوز لگ لگتے ہیں لیکن یہاں ایک بڑی مشکل موجود ہے۔ ویکسین لگوانے کیلئے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی شرط رکھی گئی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ کم آمدن والے افراد‘ خواتین (خصوصاً زیادہ عمر کی خواتین) اور ایسے دیگر افراد جنہوں نے اب تک اپنا قومی شناختی کارڈ نہیں بنوایا ہے وہ ویکسین بھی نہیں لگوا سکیں گے۔ ان افراد میں گھریلو ملازمین بھی شامل ہیں جو دیہی علاقوں سے کام کی تلاش میں شہر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس ضروری دستاویزات اور پیدائشی ریکارڈ بھی نہیں ہوتا جس وجہ سے ان کیلئے نادرا کی شرائط پوری کرنا مشکل ہوتا ہے۔کورونا وبا کا عرصہ دنیا بھر کی خواتین کیلئے بھیانک خواب ثابت ہوا ہے۔ کہیں انہیں گھر پر رہنے والے مردوں کے مطالبات اور جسمانی اور زبانی مظالم کا سامنا کرنا پڑا ہے تو کبھی گھر میں رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے وہ اپنے کیریئر میں پیچھے رہ گئی ہیں اور کہیں وہ اس وبا سے مر رہی ہیں کیونکہ انہیں مناسب دیکھ بھال کیلئے ہسپتال بھی نہیں لے جایا جاتا۔ حکومت ِپاکستان ویکسین لگوانے کی خواہش مند خواتین کی مدد کرسکتی ہے۔ ویکسین کیلئے شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سے زیادہ سے زیادہ خواتین باآسانی ویکسین لگواسکیں گی۔ کورونا وائرس کسی کو اپنا شکار بنانے سے قبل یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے پاس شناختی کارڈ ہے یا نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسی خواتین کے لئے کہ جن کے پاس ضروری شناختی دستاویزات نہیں ہیں‘ شناختی کارڈ کی صورت ویکسین کی شرط ختم کردے۔ اس کے علاوہ طویل مدت میں شادی‘ طلاق اور دیگر معاملات کی نادرا میں رجسٹریشن کو آسان بنانا ہوگا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)