ویکسین کمی بیشی۔۔۔

کورونا وبا کی پہلی‘ دوسری اور تیسری لہر کا ذکر کرنے والے حکومتی اراکین اپنی اُس بنیادی ذمہ داری کا ذکر نہیں کرتے جس کی ادائیگی میں کوتاہی سرزد ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے 4 درجن سے زائد اراکین میں سے کسی ایک کو بھی دھیان نہیں آیا کہ وہ تجویز دیتا کہ پاکستان کو بھی کورونا ویکسین کی خریداری کیلئے پیشگی آرڈز دینے چاہیئں۔ 20 جون 2020ء کے روز اچانک 159 مریضوں کی کورونا کے باعث اموات ہوئیں۔ یہ اموات کورونا کی پہلی لہر کے دوران سامنے آئی تھیں۔ اِس کے بعد 24 دسمبر 2020ء تک پاکستان میں ہر دن 111 اموات ہوئیں۔ 28 اپریل 2021ء کے روز پاکستان میں 201 اموات کورونا وبا کے سبب ہوئیں اور یہ پاکستان میں کسی بھی ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ اموات تھیں اور کورونا وبا کی تیسری لہر میں مریضوں اور اموات کا سلسلہ ہر دن بڑھ رہا ہے۔پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 9 لاکھ تک پہنچ چکی ہے لیکن تاحال حکومت نے کورونا ویکسین کا آرڈر نہیں دیا۔ پہلی دوسری اور تیسری کورونا لہر میں اب تک 18 ہزار کے قریب اموات بھی ہو چکی ہیں لیکن پھر بھی کورونا ویکسین کا آرڈز نہیں دیا جا رہا اور حکومت عطیات کی راہ دیکھ رہی ہے۔ اب تک کورونا ویکسین کے عطیات ہی سے کام چلاتے ہوئے حکومت کسی کرشمے کی منتظر ہے۔ 27 جنوری کے روز وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ہر رکن اسمبلی کے لئے 500 ملین (50کروڑ) روپے کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا اور اگر تمام اراکین اسمبلی کو دیئے جانے والے اِس ترقیاتی فنڈ کا مجموعی حجم دیکھا جائے تو یہ 88.5 ارب روپے بنتا ہے۔ اگر حکومت کورونا وبا کو حقیقی طور پر خطرہ سمجھتی تو اِن ساڑھے اٹھاسی کروڑ روپے سے ساڑھے چودہ کروڑ پاکستانیوں کیلئے کورونا وبا سے بچاؤ کی ویکسین کی پہلی خوراک کا بندوبست کر سکتی تھی لیکن جب بات ویکسین کی آتی ہے تو حکومت کی جانب سے مالی وسائل مختص نہیں کئے جاتے۔ 20مارچ کے روز عمران خان کورونا وبا سے خود بھی متاثر ہوئے جس کے بعد حکومت خواب سے جاگی اور اُس نے چین سے 10 لاکھ ویکسین خریدیں جو کورونا ویکسین کی پہلی خریداری تھی۔موجودہ صورتحال میں حکومت کی ترجیحات کیا ہونی چاہئے اِس سلسلے میں بھوٹان کی مثال ہے جو ایک غریب ملک ہے اور جس کا سمندر سے زمینی رابطہ بھی نہیں۔ بھوٹان کی حکومت نے 62 فیصد عوام کیلئے کورونا ویکسین حاصل کر لی جبکہ پاکستان میں صرف ایک فیصد عوام ہی کو ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔ بھارت میں 9 فیصد اور بنگلہ دیش میں 3.5 فیصد عوام کو کورونا ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ تھائی لینڈ میں 52 فیصد‘ نیپال میں 47 فیصد‘ ترکی میں 63فیصد‘ افریقن یونین میں 40فیصد اور پاکستان میں صرف ایک فیصد عوام کورونا ویکسین لگوا چکے ہیں۔28 اپریل کے روز وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں یہ بات فخریہ طور پر کہی کہ ”پاکستان میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے اور یہ یومیہ 1 لاکھ ویکسینز تک پہنچ چکا ہے۔“ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس کورونا ویکسین کی کل کتنی مقدار موجود ہے اور اگر اِس رفتار سے ویکسین لگتی رہی تو مزید ویکسین کہاں سے آئے گی؟ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا وبا پر قابو پا لے گی لیکن صرف لاک ڈاؤن کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ لاک ڈاؤن کے ذریعے بیماری پھیلنے کے عمل میں وقفہ لایاجا سکتا ہے جبکہ کورونا وبا کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اِس سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے جو کہ مؤثر اور کارگر ہے اور جن ممالک میں ویکسین کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے وہاں کورونا وبا کے نئے کیسز سامنے آنے کی شرح بھی کم ہے۔ 9 اپریل کو پاکستان نے یورو بانڈز کے ذریعے 2.5 ارب ڈالر حاصل کئے جبکہ پورے پاکستان کو ویکسین لگانے کی قیمت 1.5 ارب ڈالر ہے۔ اگر پاکستان کے فیصلہ ساز کورونا وبا کا پھیلاؤ روکنا چاہتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ اِس وبا کی چوتھی اور مزید لہریں نہ آئیں تو اِنہیں مزید تاخیر کئے بغیر کورونا ویکسین خریدنا ہوگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)