گردشی قرض: کمی بیشی اور حقائق۔۔۔۔۔۔۔

وفاقی حکومت نے توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے بوجھ (گردشی قرض) کی ادائیگی کیلئے جو دو سالہ سرکلر ڈیبٹ منیجمنٹ پلان وضع کیا ہے‘ غیر حقیقی سبسڈی مختص کرنے کے باعث گردشی قرضے میں فوری کمی کا امکان نہیں ہے۔ قابل ذکر ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کو بھی اِس بارے میں اعتماد میں لیا تھا کہ وہ گردشی قرضے میں کمی لائیں گے لیکن صورتحال برعکس دکھائی دے رہی ہے کہ پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (پی ایچ پی ایل) میں بجلی کے شعبے کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ناکافی بجٹ‘ آزاد بجلی گھروں کو ادائیگیوں اور نئے مالی سال میں آمدن و اخراجات کے میزانئے (وفاقی بجٹ) سال 2021-22ء کیلئے مجموعی طور پر ٹیرف کی تفریق پر مبنی سبسڈی سے متعلق صورتحال زیادہ تسلی بخش نہیں اور اِس سلسلے میں پاور ڈویژن کی جانب سے ایک احتجاج بھی سامنے آیا ہے جو وزارت خزانہ اور وزیر اعظم آفس تک پہنچایا گیا ہے کیونکہ مالیاتی ڈویژن مالی سال دوہزار اکیس بائیس کیلئے بجلی کے شعبے کیلئے حقیقی ضرورت پانچ سو ایک ارب روپے کے مقابلے میں قریب تین سو ارب روپے کی سبسڈی مختص کر رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسو ایک ارب روپے ڈیلٹا مالی سال کے آغاز پر ہی تیار کیا جارہا تھا جو سٹاک میں اضافہ کرے گا۔ پی ایچ پی ایل لون کی فنانسنگ لاگت اور آئی پی پیز کو سود کی ادائیگی کے حساب سے تین سو باون ارب روپے اضافے کے بعد وزارت خزانہ کے مختص رقم سے پیدا ہونے والا مجموعی ڈیلٹا پانچ سو تریپن ارب روپے ہوگا۔ جب تین بڑے حصوں میں سے ایک مالی سال پانچ سو تریپن ارب کے خسارے کے ساتھ شروع ہوتا ہے تو گردشی قرضے سے نمٹنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ سی ڈی ایم پی میں تین بڑے اسٹیک ہولڈرز کی شراکت شامل ہے اور ایک عنصر میں ناکامی پورے ڈھانچے کو پٹڑی سے اتار دے گی۔آئی ایم ایف کے ساتھ وعدے اور تعاون کے منصوبے کے تحت بجلی کے شعبے کو دو برس میں (یعنی مالی سال دوہزاراکیس بائیس اور مالی سال دوہزار بائیس تیئس) میں چھبیس کھرب پچاس ارب روپے کا اضافی مالی تعاون ملنا تھا۔ اس کے ایک حصے کے طور پر فنانس ڈویژن نے اگلے مالی سال میں دوسو اکیاسی ارب اور مالی سال دوہزار بائیس تیئس میں ایک سو پچپن ارب روپے کا اضافہ کرنا تھا تاہم بجلی کے تقسیم کار نے بتایا کہ یہ رقم مختص کرنا غیر حقیقی ہے اور اس کے نتیجے میں گردشی قرضے میں اضافہ ہوگا۔ پاور ڈویژن نے فنانس ڈویژن اور وزیر اعظم آفس کو مطلع کر دیا ہے کہ وزیر اعظم صارفین پر اضافی بوجھ کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن غیر حقیقی سبسڈی مختص کرنے کا فیصلہ اہداف کے حصول سے گردشی قرض ختم کرنے سے متعلق جملہ کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جولائی دوہزاربائیس تک صارفین کے اوسط نرخوں کو فی یونٹ سولہ روپے سے بڑھا کر بیس اعشاریہ پچاس روپے کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ مناسب سبسڈی کی عدم ادائیگی یا ریکوری میں کمی اور کارکردگی میں بہتری کی ضرورت ہوگی۔پاور ڈویژن کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ حقیقی اہداف اور درست مالی اعانت کر کے ہی دو سالہ منصوبے سے متعلق کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے نظر ثانی شدہ ’سی ڈی ایم پی‘ پر پیشرفت کا جائزہ لیا اور یہ بات ریکارڈ پر آئی کہ بار بار محصولات میں اضافے‘ پرانے پلانٹس کی بندش‘ ایندھن کے تبادلوں‘ بروقت سبسڈی کی ادائیگی اور ٹیکس کے باوجود گردشی قرضے گیارہ سو ارب روپے کے بقایا ادائیگیوں کے ساتھ برقرار رہے گا۔ رواں سال کے دوران قریب چار سو چھتیس ارب روپے کے اضافے کے ساتھ گردشی قرضے کا تخمینہ تیس جون دوہزار اکیس تک پچیس کھرب ستاسی ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سی ڈی ایم پی کے بغیر گردشی قرضے مالی سال دوہزارتئیس کے اختتام تک سینتالیس کھرب ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ بل کی وصولی میں پانچ اعشاریہ تہتر فیصد اضافے اور تکنیکی نقصانات میں دو فیصد سے زائد اضافے کی وجہ سے کارکردگی میں کچھ حد تک بہتری آنے سے دوہزارتیئس تک گردشی قرضے کا تخمینہ چوالیس کھرب روپے لگایا گیا ہے یہ منصوبہ اُن مفروضوں پر مبنی ہے کہ بجلی کی خریداری کے معاہدے کے ساتھ نظرثانی شدہ تجارتی معاہدے پر جون دوہزار اکیس تک کراچی الیکٹرک کے ساتھ دستخط ہوں گے جس کے تحت بجلی کی کھپت میں ساڑھے چار فیصد سالانہ اضافہ ہوگا اور اکتوبر دوہزارتئیس تک صنعتی معاون پیکیج میں اضافی کھپت جاری رہے گی۔ بجلی پیدا کرنے والی نجی اداروں (آئی پی پیز) کو چارسوتین ارب روپے کی ادائیگیوں کی منظوری کے ذریعے قرضوں کا ذخیرہ چند ماہ کے دوران سات سو ارب روپے سے کم کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بروقت سالانہ ٹیرف چھوٹ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ‘ جون میں اے جے کے سبسڈی کی ادائیگی اور آئندہ بجٹ میں پی ایچ پی ایل اور آئی پی پیز مارکیٹ کی ادائیگی سرچارج کی وصولی کے فرق کو مختص کرنے کی صورت میں سب سے بڑا وعدہ وفاقی حکومت کی جانب سے پورا ہونا ہے۔ اس دوران حکومت آزاد بورڈ کی تشکیل اور ڈسکو کے چیف ایگزیکٹوز کی تقرری رواں ماہ کے اندر مکمل کرے گی۔ حکمت عملی کے تحت ’غیر معمولی نقصان والے فیڈز‘ کو آؤٹ سورس کیا جائے گا۔ ڈسکو کو سرمائے کے اخراجات کیلئے اہداف دیئے جائیں گے اور لوڈشیڈنگ مکمل طور پر آمدنی کی بنیاد پر ہوگی۔ نجکاری کمیشن نے بیک وقت پانچ بھاری نقصان اٹھانے والی کمپنیوں کیلئے دس سالہ مراعات کے معاہدے اور پانچ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بجلی کے تقسیم کاروں (ڈسکوز) کیلئے پانچ سالہ انتظامی معاہدے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اِس پوری صورتحال میں بجلی کے صارفین کو اگرچہ پرانے نرخوں پر بجلی ملتی رہے گی لیکن گردشی قرض بڑھنے سے جو مالیاتی ذمہ داری حکومت پر بڑھ رہی ہے اُس کی ادائیگی بہرحال صارفین ہی نے کرنی ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خلیق کیانی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)