تارکین وطن کے حقوق

 سال 1971ء سے 2005ء تک قریب چالیس لاکھ پاکستانی روزگار کیلئے سعودی عرب گئے۔ شاید اس کے بعد کے عرصے میں یہ تعداد دگنی ہوگئی ہو۔ ان افراد کی بڑی تعداد مزدور‘ ٹیکسی ڈرائیور اور تعمیراتی کام کرنے والے افراد کی ہے۔ اس صحرا نے ان کے کچھ ایسے خواب پورے کئے جو پاکستان میں کبھی پورے نہیں ہوسکتے تھے۔ یہ لوگ جب کبھی وطن واپس جاتے ہیں تو اپنے پیاروں کیلئے تحائف لے کر جاتے ہیں۔ یہ تحائف بہت قناعت کے بعد خریدے جاتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے گھر میں پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیں گے تو گھر والوں کو مزید کتنی رقم بھیج سکیں گے۔ شاید ان میں سے کچھ تو صرف ایک وقت کا ہی کھانا کھاتے ہوں۔ یہ لوگ رہنے کیلئے زیادہ جگہ کا بھی تقاضا نہیں کرتے۔ بعض اوقات تو درجن بھر کے قریب لوگ صرف ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ وہاں انہیں بس اتنی جگہ میسر ہوتی ہے کہ وہ کمر توڑ مشقت سے بھرا دن گزارنے کے بعد سو سکیں۔تارکینِ وطن مزدوروں کیلئے زندگی جسمانی اور ذہنی اعتبار سے بہت کٹھن ہوتی ہے‘ وہ کئی کئی مہینوں یا سالوں تک اپنے پیاروں سے نہیں ملتے لیکن اس کا مناسب صلہ بھی ملتا ہے۔ پاکستان میں آنے والی ترسیلاتِ زر ملکی ریوینیو کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور ہمارا اس پر انحصار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ سال 2019-20ء کے دوران پاکستان میں ترسیلات ِزر کی صورت میں ریکارڈ 23 ارب ڈالر آئے۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ پاکستانی سفارتی مشن کے رویئے پر وزیرِاعظم کی ناراضی بالکل جائز تھی۔ اس ناراضی کی وجہ سے سعودی عرب میں تعینات سفیر کو واپس بلا لیا گیا ہے اور متبادل کے طور پر ایک ریٹائرڈ جنرل کو سعودی عرب میں سفیر تعینات کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سفارت خانے کے چھ دیگر افسران کو بھی پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی جو حال ہی میں ایران کے سرکاری دورے سے واپس آئے ہیں‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی حکومت بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کو خصوصی اہمیت دیتی ہے‘ یہ بات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منشور کا بھی حصہ ہے۔ بیرونِ ملک اور خصوصاً سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے حکومت کے تحفظات قابلِ ستائش تو ہیں لیکن ساتھ ہی وہ عارضی بھی ہیں۔ دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان کو ایک یکساں قونصلر پالیسی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو وہ سب کچھ فراہم کرسکے جس کا سعودی عرب میں مقیم مزدور وزیرِاعظم سے مطالبہ کر رہے ہیں اور جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک تمام اقدامات عارضی اور غیر مؤثر ثابت ہوں گے۔ ہمیں اس پالیسی کی سب سے زیادہ ضرورت مشرق وسطیٰ میں ہے۔ ایشیائی ممالک کے شہری اور خصوصاً پاکستانی روزگار کیلئے خلیجی ممالک کو ترجیح دیتے ہیں۔ سال 2017ء میں جنوبی ایشیائی افراد کی جانب سے منتخب کئے گئے 10ممالک میں 4 خلیجی ممالک یعنی سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت اور عمان شامل تھے۔ بدقسمتی سے جب ایک بار پاکستانی ان ممالک میں قدم رکھتے ہیں تو ان کا مکمل انحصار صرف اپنے آپ پر ہی ہوتا ہے اور یہ صورتحال بہت مشکل بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ان ممالک کے نظامِ انصاف کے شکنجے میں پھنسنا بھی بہت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً دس ہزار پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر قیدی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں۔ کسی مستقل نظام کی عدم موجودگی کے سبب دیگر ممالک میں موجود پاکستانی سفارتی مشنز کیلئے ان ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کی بڑی تعداد کے حقوق کا تحفظ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس وجہ سے پاکستانیوں کو بغیر مقدمے کے طویل عرصے تک قید میں رہنے اور سعودی نظامِ انصاف کو سمجھنے کیلیے قانونی مدد کی عدم فراہمی جیسی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کا عملہ نہ ہی فون کال کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی جیلوں کا دورہ کرتا ہے جو اصولی طور پر انہیں کرنا چاہئے۔ شکر ہے کہ ہمارے وزیرِاعظم ان مزدوروں اور قیدیوں کی مشکلات سے آگاہ ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہو۔ فروری 2019ء میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر وزیرِاعظم عمران خان نے ان سے پاکستانی قیدیوں کے ساتھ ہمدردی کی درخواست کی تھی۔ ولی عہد نے اس درخواست کا جواب بھی شاہانہ انداز میں دیا اور دو ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد سے میں ایسے کئی افراد سے مل چکا ہوں جن کے پیاروں کو سعودی عرب میں قید کیا گیا تھا۔ وہ سب اس دن یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے تھے کہ ان کے پیارے بہت جلد وطن واپس آجائیں گے تاہم ان میں سے اکثر آج تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ اب تک پاکستانی حکام نے واپس لوٹنے والے قیدیوں کی درست تعداد جاری نہیں کی ہے۔ سال دوہزار اُنیس میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق اس وعدے کو ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کم و بیش نوے قیدی ہی واپس پاکستان آئے ہیں۔ اس کے بعد کچھ مزید افراد بھی واپس آئے جن کو عید یا دیگر مواقع پر معافی دی گئی تھی تاہم ہزاروں پاکستانی اب بھی قید ہیں اور وبا کے دوران ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے اب جبکہ عید بھی آنے ہی کو ہے اور سعودی عرب میں پاکستانی مشن میں نئے چہرے بھی آچکے ہیں تو یہ پاکستانی حکومت کیلئے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ سعودی عرب سے ایک بار پھر قیدیوں کی رہائی کی بات کرے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: علی حیدر حبیب۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)