ماہ رمضان المبارک کے تجربات اور یادوں میں سحری جگانے والے بھی شامل ہیں‘ جو ایک خوبصورت روایت کا تسلسل ہیں۔ عمومی صورتحال میں شب کے کسی پہر اگر ڈھول کی آواز اور اس کے ساتھ جگانے کی صدائیں آئیں تو یہ آوازیں سن کر لوگ گھبرا جائیں۔ تاہم رمضان کے مہینے میں اس روایتی اور جیتے جاگتے ”الارم کلاک“ پر بہت زیادہ انحصار ہوتا ہے جو آج بھی چھوٹے بڑے شہروں میں سنی جاسکتی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سالہ عابد حسین ڈھول والے ہیں اور وہ گزشتہ تیس سال سے سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کا کام کر رہے ہیں۔ عابد غریب آباد کے اپنے گھر میں ساری رات جاگتے ہیں اور اپنے موبائل فون پر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ رات کے دو بجے جب نیند کی شدت سے ان کی آنکھیں سرخ ہوچکی ہوتی ہیں تو وہ اپنی اہلیہ کو جگاتے ہیں تاکہ وہ عابد کیلئے سحری تیار کرسکیں۔ سحری کرنے کے بعد رات ڈھائی بجے وہ اپنے کندھے پر ڈھول لٹکائے اپنی گلی کے کونے پر پہنچتے ہیں جہاں سے وہ ڈھول بجانا اور لوگوں کو جگانے کیلئے صدا لگانا شروع کرتے ہیں۔ اپنے مخصوص راستے سے گزرتے ہوئے وہ یہی عمل دہراتے رہتے ہیں۔ ایک دہائی پہلے تک انصاف محلہ‘ غریب آباد کے ستر سے زائد ڈھول والے سحری میں لوگوں کو جگانے کیلئے یونیورسٹی ٹاؤن‘ صدر اور یہاں تک کہ رِنگ روڈ اور حیات آباد جیسے دور دراز علاقوں تک جایا کرتے تھے لیکن اب ان ڈھول والوں کی تعداد کم ہوکر صرف پچیس رہ گئی ہے۔ عابد نے بتایا کہ ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں ڈھول بجانا غیر اسلامی ہے۔ یہاں کے فنکاروں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہم شہر کے وسطی علاقوں میں خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں اور ہمیشہ ایک گروپ کی صورت میں چلتے ہیں۔ ہم رمضان سے پہلے ہی طے کرلیتے ہیں کہ کون سا ڈھول والا کس علاقہ میں جائے گا اور ہر علاقے کیلئے دو ڈھول والے مختص کر دیئے جاتے ہیں۔‘ عابد حسین کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے مومن آباد میں پورا مہینہ لوگوں کو جگانے کا کام کیا اور جب عید پر وہ اپنی رقم لینے گئے تو معلوم ہوا کہ کوئی اور شخص خود کو ڈھول بجانے والا بتا کر پہلے ہی لوگوں سے رقم لے چکا ہے۔ عابد نے بتایا کہ ’اسی وجہ سے رمضان کی ابتدا میں محلے کے بزرگوں سے ملاقات کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ انہیں معلوم رہے کہ کون انہیں سحری میں جگاتا ہے اور رقم کسے ادا کرنی ہے۔‘ لوگوں کے رویئے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور بدلتا ہوا طرزِ زندگی ڈھول والوں کیلئے شاید سب سے بڑا چیلنج ہے۔ عابد حسین کا کہنا ہے کہ ’لوگ ساری رات سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس وجہ سے یا تو انہیں سحری میں جگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی یا پھر وہ اپنے فون میں الارم لگا لیتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو ڈھول بجانے کی روایت پسند ہے اور وہ آج بھی محلے والوں سے رقم جمع کرکے سحری میں جگانے کیلئے ڈھول والے کا بندو بست کرتے ہیں۔‘ میاں عرفان اللہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ وہ سحری کے وقت اٹھنے کیلئے اپنے فون پر الارم لگاتے ہیں لیکن انہیں سحری میں جگانے کیلئے ڈھول بجانے کی روایت پسند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ روایت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے اجداد سحری میں کس طرح اٹھتے تھے۔‘ تاہم دوسری جانب تئیس سالہ عزیر خان ڈھول والے کو اپنی گلی میں آنے کی اجازت دینے پر اپنے بزرگوں سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈھول غیر ضروری شور کا باعث بنتا ہے۔ وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ یہ روایت اب ختم ہورہی ہے‘ عابد نہیں چاہتے کہ ان کے بیٹے اس روایتی کام کو اختیار کریں جس سے بہت کم آمدن ہوتی ہے لوگوں کی زندگیوں میں ہماری اہمیت کم ہوگئی ہے۔ میں اس عمر میں روزی روٹی کمانے کیلئے کوئی نیا ہنر بھی نہیں سیکھ سکتا اور نہ ہی مزدوری کی مشقت اٹھا سکتا ہوں ڈھول کے ذریعے سحری جگانے کی صدیوں پرانی اس روایت کا آغاز وسط ایشیا سے ہوا تھا۔ افغان اور پختون خطوں کے بعد یہ روایت اندرونِ سندھ اور کشمیر تک پھیل گئی۔‘ جیسے ہی عابد حسین اپنی مختص کردہ گلیوں میں آخری گھر تک پہنچتے ہیں تو انہیں گھروں میں لائٹیں جلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں‘ انہیں اندر سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی آوازیں اور باورچی خانوں سے پراٹھے تلے جانے کی خوشبو آتی ہے۔ انہیں ان نوجوانوں پر افسوس ہوتا ہے جو روایت اور ثقافت کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: وسیم سجاد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)