کورونا کے سائے اور عید۔۔۔

دنیا بھر سوا تین کروڑ سے زائد لوگوں کی جانیں نگلنے والی کورونا وبا کے سائے تلے پاکستان میں عید الفطر نہایت ہی خاموشی اور افسردگی کے ساتھ منائی گئی۔ متوسط طبقہ قوت ِاستطاعت کی کمی کا شکار ہے جبکہ ملک میں کورونا وبا کی نئی لہر کے پیش نظر ایک بار پھر سخت پابندیوں کے اطلاق کی وجہ سے بے بہا خرچ کرنے والی اشرافیہ بھی گھروں تک محدود ہے۔ خریداری کے اوقات کار میں کمی‘ وبا کا خوف‘ سماجی سرگرمیوں پر پابندیاں‘ غیر یقینی‘ گھریلو آمدن میں گراوٹ اور مہنگائی جیسے عناصر نے رواں سال عید الفطر کے موقع پر کاروباری سرگرمیوں کے حجم کو مزید کم کر ہے۔سال 2020ء میں عید کاروبار کا حجم پانچ سو ساٹھ ارب روپے تھا جبکہ رواں سال اس کا تخمینہ بیس فیصد کی کمی کے ساتھ 448ارب روپے رہا۔ عیدالفطر کے موقع پر آن لائن خریداری کا رجحان اِس مرتبہ زیادہ دیکھنے میں آیا اور اندازہ ہے کہ آن لائن خریداری کے رجحان میں پچیس فیصد اضافہ کچھ خاص معنی نہیں رکھتا۔ گزشتہ برس بعد از عید ہونے والے کورونا کیسوں میں اضافے اور اس وقت جاری تیسری مہلک وبائی لہر میں بڑھتے کیسوں کی تعداد کے پیش نظر چودہ اپریل کو حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے سخت پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ غیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلنے کی عمومی ہدایات کے ساتھ ساتھ حکومت نے ایس او پیز پر سختی سے عمل کروانے‘ انڈور اور آوٹ ڈور سماجی‘ ثقافتی‘ سیاسی اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر پابندی‘ ہفتہ اور اتوار کو شہر بند رکھنے‘ بازاروں کے اوقات کار کو شام چھ بجے تک محدود کرنے اور انٹر سٹی سفر پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔ملک میں اموات کی بڑھتی تعداد کے باوجود کچھ خوش قسمت ایسے بھی ہے جنہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں یا پیاروں کو نہیں کھویا‘ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس بیماری (کورونا) سے انتقال کرنے والوں کی خبریں ضرور سن رکھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر پڑوسی ملک بھارت میں کورونا وائرس کے باعث بکھرتے شعبہ صحت کے مناظر پر مبنی تصاویر اور ویڈیوز کی گردش نے جہاں پاکستان میں اس مرض کا خوف پیدا کیا ہے وہیں وائرس سے متعلق من گھڑت باتوں کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔کورونا عالمی وبا نے پاکستان کی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچایا۔ مالی سال 2019-20ء میں مجموعی قومی پیداوار میں صفر اعشاریہ چار فیصد تک کمی واقع ہوئی تھی۔ مالی سال 2020-21ء میں کاروبار کیلئے بڑے پیمانے پر دیئے گئے حکومتی امدادی پیکج نے گراوٹ کو روکنے میں مدد کی تاہم اس کے نتیجے میں ہونے والی بحالی کمزور اور روزگار سے محروم ہے۔ یہی گھریلو آمدن میں کمی کی وجہ ہے۔ مہنگائی میں مسلسل اضافے نے گھرانوں پر معاشی دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔ حقیقی آمدن میں نمایاں گراوٹ نے گھریلو عید بجٹ کو محدود کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ویکسینیشن کی سست رفتاری اور موجودہ حکومت کی جانب سے ہر کچھ عرصے بعد انتظامی تبدیلی نے عوامی اعتماد کو بحال نہیں کیا۔ یہ بے پناہ عوامی گھبراہٹ اخراجاتی خواہشات کو محدود کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔سال 2018ء میں جب چار فیصد مہنگائی کے ساتھ معیشت میں پانچ فیصد اضافہ بتایا گیا تھا اس وقت کے اقتصادی تخمینہ جات کے مطابق پاکستان میں عید اخراجات نے ایک کھرب روپے کا سنگ میل عبور کرلیا تھا۔ تمام اقسام کی معاشی لین دین سے متعلق ہر گزرتے لمحے کے اعداد و شمار کی (نقد کی بنیاد پر ہونے والی سرگرمی اور وسیع غیر رسمی شعبے کے سبب) غیر موجودگی کی وجہ سے تجارتی نمائندگان کی رائے‘ اسٹیٹ بینک پاکستان کے جاری کردہ نئے نوٹوں‘ عید سے قبل بینک سے رقوم نکلوانے کے عمل اور ترسیل زر کے بہاؤ میں آنے والی تیزی کی مدد سے عید اخراجات کے حجم کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس کی ہی طرح اس بار بھی اسٹیٹ بینک پاکستان نے نئے نوٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ رواں مالی سال میں ترسیل زر کا پہلے ہی اوسط ماہانہ بہاؤ دو ارب ستر کروڑ ڈالر تک پہنچا ہوا ہے۔ عام طور پر عید سے ایک ماہ قبل یہ دگنا ہوجاتا ہے۔ اس سال اس میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن حقیقی اعداد و شمار کچھ عرصے بعد ہی جاری کئے جائیں گے۔ بینک سے نکالی جانے والی رقوم سے متعلق اعداد و شمار بھی فوری طور پر دستیاب نہیں ہیں۔ بینکوں نے نجی طور پر بتایا ہے کہ کورونا وبا سے پہلے کے وقتوں کے مقابلے میں اس وقت رقوم نکلوانے کا عمل کافی چھوٹے پیمانے پر جاری ہے۔اس سال عیدالفطر کے موقع پر بڑے شہروں میں (معاشی حجم پر اثر انداز ہونے والے) لوگوں کی خرید و فروخت کے مراکز پر جانے میں تیس فیصد سے زائد تک کمی واقع ہوئی۔ جس کی وجہ فی ہفتہ دو دن کاروبار کی بندش اور ہمارے روایتی انتہائی رش کے گھنٹوں (شام چھ سے رات نو بجے) کے دوران فروخت کے مواقع سے محرومی ہے۔ پھر لوگ کپڑے بدل کر جائیں کہاں اور مہنگائی کی رفتار کا مقابلہ کرنے میں ناکام دستیاب آمدن کی وجہ سے منافع کے مارجن مزید سکڑ چکے ہیں جبکہ خریداروں کی نسبتاً سستے آپشنز کی خریداری چھوٹے پیمانے کے مارجن کی وجہ بن رہی ہے چنانچہ کورونا وبا سے پہلے کے وقتوں کی صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو ایک اندازے کے مطابق ریٹیل شعبے کی مجموعی آمدن میں کم از کم چالیس فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا‘ حکومت اقتصادی دباؤ اور غیر یقینی کی صورتحال میں صارفین کو خریداری ٹالنے پر مجبور کر رہی ہے ای کامرس حالات کو کسی حد تک بحال رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور ہر چھوٹا بڑا کاروباری ادارہ صارفین کے بدلتے رویئے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے اس کا سہارا لے رہا ہے تاہم اس کے ذریعے فی الحال بازاروں میں لوگوں کے رش میں کمی سے پیدا ہونے والے اثرات کا مقابلہ کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملی کیونکہ ای کامرس کا رجحان اب بھی بہت ہی چھوٹے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ ایمازون (آن لائن خریداری کا سب سے بڑا مرکز) کی جانب سے اپنی فروخت کنندہ فہرست میں پاکستان کی شمولیت سے مقامی سپلائرز کے لئے دنیا کے دروازے کھل جائیں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: افشاں صبوحی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)