آج کی دنیا علوم میں ترقی کرنے والی اقوام کے نام ہے۔ دنیا کے ہر پانچ افراد میں سے ایک مسلمان ہے لیکن یہ مسلمان سیاسی و سماجی طور پر بھی متحد نہیں۔ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم (او آئی سی) کے ستاون رکن ممالک ہیں اور اِن مسلمان ممالک میں کل پانچ سو جامعات ہیں۔ جہاں زیرتعلیم طلبہ کا شمار بھی کم ہے۔ صرف امریکہ میں پانچ ہزار سات سو جامعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی (UNDP) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق عیسائیوں کی دنیا میں خواندگی کی شرح 89 فیصد ہے اور پندرہ ایسے ممالک ہیں جہاں ایک بھی ناخواندہ شخص نہیں! مسلم ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہے کہ ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں ہر شخص خواندہ ہو۔ امریکہ میں سائنس دانوں کی تعداد چار ہزار اور جاپان میں پانچ ہزار ہے۔مسلم اکثریتی ممالک میں سائنس دانوں کی کل تعداد صرف دوسوتیس ہے۔ (تمام ماہر سائنسدان سائنسدان نہیں ہیں۔ سائنس دان ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا طالب علم جو مثبت علوم سے فعال طور پر نپٹتا ہے اور ہر دس لاکھ مسلمانوں کیلئے صرف ایک مسلم سائنسدان ہے۔ تکنیکی علوم کے معاملے میں‘ مسلم اکثریتی عرب ممالک میں صورتحال بدتر دکھائی دیتی ہے جہاں ہر دس لاکھ آبادی میں پچاس ٹیکنیشن ہیں۔ عیسائی دنیا میں‘ ہر ایک ملین لوگوں کیلئے ایک ہزار تکنیکی ماہرین ہیں ذہن نشین رہے کہ پاکستان سے ہونے والی کل برآمدات میں اعلی ٹیکنالوجی کی برآمدات کی تناسب ایک فیصد ہے جبکہ سعودی عرب‘ کویت‘ مراکش اور الجیریا میں یہ تناسب صفر اعشاریہ تین ہے۔ مسلمان ممالک کے فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ مستقبل کی دنیا میں انحصار علم پر مبنی معاشرے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ستاون مسلم ممالک کی مشترکہ مجموعی قومی پیداوار دو کھرب سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف ’تین سو دس ملین‘ امریکیوں کے ساتھ صرف بارہ کھرب ڈالر مالیت کے سامان اور خدمات تیار کرتا ہے۔چین آٹھ کھرب ڈالر‘ جاپان تین اعشاریہ آٹھ کھرب ڈالر اور جرمنی ڈھائی کھرب ڈالر تیار کرتا ہے۔ سپین کی ٹیکنالوجیکل برآمدات ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہیں۔کیتھولک پولینڈ 489 بلین ڈالر مالیت کے سامان اور خدمات تیار کرتا ہے۔تھائی لینڈ 545 ارب مالیت کا سامان اور خدمات فراہم کرتا ہے جبکہ عالم اسلام کی مجموعی قومی پیداوار کا تناسب پوری دنیا کی مجموعی قومی پیداوار کے ساتھ تیزی سے کم ہورہا ہے۔ تعلیم و تحقیق و ترقی کے فقدان کی وجہ سے مسلم دنیا کمزور ہے اور یہ کمزوری معیاری اور جدید عصری تعلیم کی کمی دور کرنے سے ممکن ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام