ستائیسویں رمضان المبارک کے موقع پر اسرائیلی فوجوں نے جس وحشیانہ انداز میں مسجد اقصیٰ میں گھس کر اور نماز کی ادائیگی کے دوران نمازیوں پر تشدد کیا اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت متعدد عبادت گزار موقع پر شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ طاقت کے نشے میں اسرائیل کا یہ اقدام قبیح اور مجرمانہ تھا۔ جس کے خلاف فلسطینی باشندوں نے مزاحمت کا سلسلہ تیز کیا اور مسجد اقصیٰ کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے اور اسی عالم میں انہوں نے رات گزار دی تو اسرائیلی فوجوں نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کی نیت سے فلسطینیوں پر فضائی اور زمینی حملوں میں شدت پیدا کر دی۔ یہ حملے جاری ہیں اور مسجد اقصیٰ‘ غزہ‘ رملہ اور فلسطین کے دیگر متاثرہ علاقوں میں انسانی خون کی ارزانی دیکھ کر انسانیت بھی شرماتی نظر آرہی ہے۔ مختلف مغربی یورپی ممالک اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس کی جانب سے تو اسرائیل کی پیدا کردہ اس صورتحال کا نوٹس لیا گیا مگر ترک صدر اردوان اور ایران وعراق کی قیادتوں کے سوا پوری مسلم دنیا پر مصلحتوں کے لبادے پڑے ہوئے نظر آئے۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف مسلسل تین روز تک مسلم دنیا پر طاری خاموشی اجتماعی بے حسی کی چغلی کھاتی نظر آئی۔ تیسرے روز عرب لیگ اور اگلے روز او آئی سی نے ”گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے“ کے لئے ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں رسمی مذمت اور تشویش کے اظہار کے سوا کوئی عملی قدم اٹھانے کا اعلان نہیں کیا گیا۔عوامی سطح پر پہلے دن سے ہی بالخصوص مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حملے کے خلاف تشویش اور غم و غصہ کا اظہار سامنے آنے لگا تھا۔ بیشک خانہئ کعبہ اور حرمین شریفین کے دیگر مقدس مقامات کی طرح قبلہئ اول کی حفاظت بھی مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے مگر بحیثیت مجموعی مسلم دنیا پر ایسی بے حسی کی فضا طاری ہے کہ قبلہئ اوّل کے اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں تختہئ مشق بننے پر بھی ”دل سیپارہ“ ہونے کی نوبت نہیں آئی اور بالخصوص عرب دنیا پراسرار خاموشی کی چادر تانے بیٹھی رہی اور جب مسلم دنیا میں اسرائیلی مظالم پر تشویش کی لہر دوڑی تو وہ بھی ”نشستند و گفتند و برخاستند“ اور رسمی مذمتی بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس وقت ستاون مسلم ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں جبکہ 42 ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور 57 ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) نامی تنظیم قائم ہے۔ اقوام متحدہ کے 56 رکن مسلم ممالک اگر متحد ہو کر دنیا کی قیادتوں سے مؤثر عملی کردار کا مطالبہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اِن کی بات کو سنجیدگی سے نہ سُنا جائے۔لبنان اور شام کی سرحد سے جڑے اسرائیل کے علاقوں میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فوج کے حملے‘ اس کے صحن کو نذرآتش کرنے اور فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز امریکہ‘ برطانیہ‘ ارجنٹائن‘ شکاگو‘ عراق‘ ترکی‘ بنگلہ دیش‘ اردن‘ لبنان‘ کوسوو‘ سکاٹ لینڈ اور پاکستان میں لوگوں نے اسرائیلی کاروائیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور انسانی ہمدردی کے تحت فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ عراق میں مظاہرین نے اسرائیلی پرچم نذر آتش کئے اور فلسطینیوں کے خلاف مظالم بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ترک صدر رجب طیب اژدگان نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ ہم فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم پر خاموش نہیں بیٹھیں گے‘ ہم اسرائیلی حملوں کے بعد خطے میں امن کیلئے کوئی بھی ذمہ داری ادا کرنے کو تیار ہیں‘ مقبوضہ بیت المقدس کی حفاظت پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ اُن کے بقول ترکی کوشش کر رہا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو سبق سکھائے۔ فلسطین کے مسئلے پر پاکستانی قوم میں تشویش اور اضطراب پایا جاتا ہے جس سے حکومت نے عالمی برادری اور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم (اُو آئی سی) کو آگاہ کر دیا ہے تاہم اِس سلسلے میں مذمتی بیانات اور مذمتی قراردادوں جیسے روایتی اقدامات سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ایکسپریس ٹریبیون۔ تحریر: شہزاد چوہدری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)