کورونا وبا: پراسرار پہلو۔۔۔

عالمی ادارہئ صحت کے کورونا کو ”عالمی وبا“ قرار دینے سے لے کر اب تک اِس جرثومے کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کیلئے سائنسی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تحقیق اور ویکسین تیار کرنے کے معاملے میں پوری دنیا کے محققین نے ایک ساتھ مل کر پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا جیسا انہوں نے کووڈ 19کے معاملے میں کیا ہے اور جن نتائج کو کرنے میں برس ہا برس لگتے تھے‘ انہیں مہینوں میں حاصل کیا ہے۔ اگر ہم گذشتہ ایک سال کی بات کریں تو اِس دوران جو کچھ سیکھا گیا وہ بہت اہم ہے۔ ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ کورونا ایک بخار اور کھانسی ہے کیونکہ اِس کی علامات ایسی ہی ہیں لیکن پھر جلد ہی اس بیماری میں مبتلا بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی قوت شامہ اور حسِ ذائقہ کھو رہے ہیں اور پھر اسے اس بیماری کے متعلق ڈبلیو ایچ او کی عام علامات کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ جوں جوں یہ وبائی مرض پھیلتا رہا دوسری کم عام علامات بھی سامنے آئیں جیسا کہ گلے کی سوزش‘ سر درد‘ عمومی درد‘ دست‘ جلد پر سرخ دانے یا انگلیوں اور انگوٹھوں کے رنگ کا بدلنا‘ آنکھوں میں خارش‘ آنکھوں کا سرخ ہونا وغیرہ۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ جو لوگ بہت بیمار ہیں فوری طبی امداد حاصل کریں۔ سنگین علامات میں سانس لینے میں دشواری‘ قوت گویائی یا نقل و حرکت میں کمی‘ بے چینی یا سینے میں درد وغیرہ شامل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پہلے سے بیمار لوگ کورونا کی زد میں آ کر سخت بیمار ہو سکتے ہیں اور جن لوگوں کو پہلے سے پھیپھڑوں میں شکایت ہے یا سی او پی ڈی ہے یا پھر انہیں ذیابیطس امراض قلب یا کینسر ہے ان کا اس وبائی بیماری کی زد میں آنا تشویشناک ہو سکتا ہے۔ اسلئے عالمی ادارہئ صحت ایسے مریضوں کو وائرس سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات کرنے کا مشورہ دیتا ہے اگرچہ زیادہ تر مریضوں کے تیزی سے صحت یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن تحقیقی مطالعوں سے پتا چلتا ہے کہ کچھ لوگوں میں کورونا وبا کی وجہ سے دل اور پھیپھڑوں سمیت دیگر اعضا کو طویل مدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ویکسین کے بعد ہسپتالوں میں داخلے اور اموات کی شرح کم ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مرض پھیلنے میں بھی کمی آئی ہے۔ عام طور پر ایک ویکسین بنانے میں دس سال لگ سکتے ہیں لیکن فائزر‘ موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا کو کورونا ویکسین کی تیاری میں اس کا عشر عشیر وقت لگا ہے اور اس کا سہرا نئی ٹیکنالوجی‘ مالی وسائل میں اضافے اور بیوروکریسی میں کمی کو جاتا ہے لیکن ویکسینز کی تیاری میں صرف مہینوں کا وقت لگنے کے باوجود اسے حاصل کرنے میں بہت سے لوگوں کو برسوں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہرحال جب ویکسین کی تقسیم کی بات کی جاتی ہے تو عالمی سطح پر اس میں بہت حد تک عدم مساوات پایا جاتا ہے اور ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں امیر اور غریب ممالک کے مابین ’چونکانے والا عدم توازن‘ ہے۔ اگرچہ ویکسینیشن یقینی طور پر وائرس سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے لیکن یہ وائرس سے مستقل دفاع فراہم نہیں کر سکتی کیونکہ وقت کے ساتھ انٹی باڈیز یعنی قوت مدافعت کم ہوتی جاتی ہے۔کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے مہینوں بعد کافی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو اب بھی مختلف قسم کی علامات کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں طویل کووڈ کہا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے کم از کم دس میں سے ایک فرد انتہائی تھکاوٹ‘ سر درد‘ سینے میں درد اور افسردگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ وبائی مرض کے آغاز میں لوگوں کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور سائنسدانوں کو ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ اس کا اثر کچھ مریضوں پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کیوں ہوتا ہے۔ سائنسدان کورونا کے طویل مدتی اثرات کا مطالعہ کر رہے ہیں اور حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو جنہیں ہلکا انفیکشن بھی ہوا ہے ان میں چھ ماہ کے دوران سخت بیمار پڑنے یا مرنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معالجین کو ان لوگوں کی تشخیص کرنے میں چوکنا رہنا چاہئے جن کو کورونا ہوا تھا۔ ان مریضوں کو مربوط‘ کثیر الضابطہ نگہداشت کی ضرورت ہو گی۔ کورونا کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دنیا میں اِس کی پھیلی ہوئی ہزاروں مختلف اقسام ہو سکتی ہیں۔ اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ چونکہ وائرس پھیلنے کیلئے اپنی نقول خود بناتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی ہیئت کو تبدیل کر لیتے ہیں۔ اکثر ان تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بعض اوقات کوئی تبدیلی وائرس کو زیادہ خطرناک یا متعدی بنا دیتی ہے۔ برطانیہ‘ جنوبی افریقہ‘ برازیل اور بھارت میں وائرس کی سپائک پروٹین میں تبدیلیاں آئیں۔ یہ وائرس کا ایک حصہ ہے جو انسانی خلیوں سے منسلک ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر این 501 وائی وائرس خلیوں کو متاثر کرنے اور پھیلنے میں زیادہ تیز ہے جبکہ برطانیہ میں پیدا ہونے والی قسم کے متعلق تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں موت کا تیس فیصد زیادہ خطرہ ہے تاہم اس کا ثبوت حتمی نہیں ہے۔بچے کورونا وبا کی زد میں آ سکتے ہیں لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں ان کے شدید طور پر بیمار ہونے کے امکانات کم ہیں اور ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ ان سے وائرس کے پھیلنے کا امکان بھی کم ہے۔ سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا روزانہ ابھرتی ہوئی نئی اقسام کے نوجوانوں میں وائرس کی منتقلی کا زیادہ امکان تو نہیں ہے۔ پچھلے مہینے یہ بات سامنے آئی کہ فروری 2020ء اور پندرہ مارچ 2021ء کے درمیان برازیل میں کورونا 19 سے کم از کم 852 بچے ہلاک ہوئے جن میں ایک سال سے کم عمر کے 518 بچے شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کیسز کی بڑی تعدادنے اس امکان میں اضافہ کیا ہے کہ برازیل میں بچے اور کم عمر بچے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار ماں اور بچے کی موت ہوئی ہے۔ سائنسی جریدے نیچر نے ایک سو امیونولوجسٹس‘ متعدی بیماریوں کے محققین اور کورونا وبا پر کام کرنے والے وائرولوجسٹس سے پوچھا کہ کیا اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے تو تقریباً نوے فیصد نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ مقامی وبائی بیماری بن کر رہے گی۔ ان کا خیال ہے کہ وائرس آنے والے برسوں تک ’عالمی آبادی کے مختلف حصوں میں گردش کرتا رہے گا۔‘ لیکن اگرچہ انسانوں کو کورونا وبا کے ساتھ رہنا پڑ سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ موت اور انفیکشن کی وہی شرح رہے گی جو ہم نے گذشتہ ایک سال کے دوران دیکھی ہے۔ انفلوئنزا ہر سال اب بھی لاکھوں جانیں لیتا ہے لیکن ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم نے اس بیماری کو برداشت کرنا سیکھ لیا ہے۔ اور اِسی طرح کورونا وبا بھی بیماری بن کر رہے گی جو وقفے وقفے سے کسی معاشرے میں ابھر سکتی ہے اور لوگ اس کی زد میں ایک سے زیادہ بار آ سکتے ہیں۔ کورونا مرض کے آغاز میں اس کے اثرات کم کرنے کا کوئی مستقل طریق کار نہیں تھا اور دنیا بھر کی حکومتیں اپنے شہریوں کو مختلف مشورے پیش کرتی تھیں لیکن ڈبلیو ایچ او اب ان اقدامات پر واضح ہے کہ آپ کو سلامت رہنے کیلئے کیا کرنا ہے۔ کم سے کم ایک میٹر کی جسمانی دوری قائم رکھنا‘ اپنی ناک اور منہ پر ماسک پہننا اور ہاتھ دھونے کی حیثیت کلیدی ہے۔ کمروں کو اچھی طرح سے ہوا دار رکھنے اور بھیڑ والی جگہوں پر جانے سے گریز کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کھانسی آئے تو اپنی کہنیوں سے یا پھر رومال سے ڈھک کر کھانسی کریں اور اگر ویکسین ملے تو اُسے جلد سے جلد لینا چاہئے کیونکہ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ’منظور شدہ ویکسین‘ اس بیماری سے شدید طور پر بیمار ہونے اور مرنے سے حفاظت فراہم کرتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ناجیہ اویس خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)