پاک سعودی تعلقات۔۔۔۔

حالیہ دنوں میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے سعودی ایڈ ایجنسی کی جانب سے ملنے والی چاول کی اُنیس ہزار بوریوں کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تقسیم پر خوب تنقید کی لیکن اس سیاسی رسہ کشی کے درمیان پاک سعودی عرب تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے معنی خیز بحث کا موقع گنوا دیا گیا۔ اس طرح کی بحث اس وقت بہت ضروری ہے کیونکہ کورونا کے بعد پاکستانی معیشت کی بحالی میں سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ریاستوں کا کردار اہم ترین ہوگا۔ پاکستانی مزدوروں کو خلیجی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہے اور پاکستان کو زرِ مبادلہ کی۔ پاکستان کی نئی ’جیو اکنامک‘ حکمت ِعملی میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ پاکستان کو کس طرح خلیجی ممالک کیلئے پرکشش تجارتی شراکت دار بنایا جائے۔ پاکستان کو قابلِ تجدید توانائی کے ان منصوبوں کی بھی شدید ضرورت ہے جن منصوبوں کو سعودی امداد مل سکتی ہے۔ مشترکہ معاشی فوائد کو پاک سعودی تعلقات کی بنیاد ہونا چاہئے تاہم بدلتے ہوئے عالمی سیاسی و جغرافیائی حقائق کی وجہ سے فوری طور پر ان تعلقات کی سمت درست کرنے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے۔ تجزیہ کاروں نے پاکستان اور ترکی کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور خلیجی ممالک کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے پاکستان کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو رد کردیا تھا لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔غزہ اور اسرائیل میں جاری خوفناک صورتحال خلیجی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ نرمی پر سوالیہ نشان اٹھائے گی۔ اس طرح پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنے سخت مؤقف کے ساتھ خلیجی پالیسی سے تعلق پر کم تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قطر کے ساتھ ایل این جی کے معاہدوں اور مزدوروں کو روزگار کی فراہمی کے معاملات سمیت قطر کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود سعودی عرب اور قطر کے تعلقات میں بہتری سے پاکستان کو بھی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مزید بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکہ کی واپسی‘ ایران میں آنے والے صدارتی انتخابات اور سعودی ولی عہد کے اقدامات پر امریکہ کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار چند ایسے نکات ہیں جو مشرق وسطیٰ میں موجود تقسیم کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب کیلئے پاکستان کی سب سے زیادہ اہمیت دفاعی شراکت میں رہے گی لیکن یہاں ذکر کی گئی تبدیلی کا مطلب ہے کہ شاید ہی ایسا کوئی موقع آئے جس میں دفاعی معاملات پر پاکستان اور سعودی عرب مقابل نہ کھڑے ہوں۔ انسداد دہشت گردی ایک ایسی چیز ہے جس میں دونوں ممالک کی شراکت میں اضافہ ہوسکتا ہے‘ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان بھی شدت پسندی کے خطرے سے دوبارہ دوچار ہو۔ مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں پاکستانی مفادات کے تحفظ کی ایک ہی صورت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک آزاد‘ واضح اور مستقبل سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔  جتنی مضبوط سکرپٹ ہوگی کرداروں کی کارکردگی بھی اتنی ہی جاندار ہوگی۔سال دوہزاراٹھارہ کے بعد سے سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی اسی کمزور سکرپٹ کے عکاس ہیں۔ سال دوہزاراٹھارہ میں سعودی عرب کے ساتھ طے شدہ توانائی کے منصوبوں پر عمل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان ان منصوبوں کیلئے رقم کے حصول اور اس کے استعمال کیلئے پوری طرح  تیار نہیں تھا۔ ایک اچھی خارجہ پالیسی میں اس طرح کی خامیوں کو دور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو بالخصوص سعودی عرب اور بالعموم خلیجی ممالک کے ساتھ معلومات اور ثقافتی روابط کا بھی احاطہ کرے گی۔ اگر ہمارا اصل مقصد اپنے مزدوروں کو روزگار فراہم کرنا یا تجارت میں اضافہ کرنا ہے تو ہمیں کھل کر یہ مدعا بیان کرنا چاہئے۔ یہ دنیا مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ اب پیچھے ہٹ کر اندرونی مسائل کے حل کی کوششیں کر رہا ہے۔ چین آگے بڑھ رہا ہے لیکن اسے ابھی کئی عالمی مسائل پر اپنا مؤقف واضح کرنا ہے اور ان مسائل میں خلیج میں جاری سیاسی مسائل بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب اور چین بھی قریبی تعلقات کیلئے پر تول رہے ہیں اور یوں پاکستان کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کا دلچسپ موقع میسر آرہا ہے۔ ہم اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ان تعلقات میں بہتری سے ہمیں بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے اور ان میں بگاڑ سے خاطر خواہ نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ہما یوسف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)