فلسطینی اپنے گھروں تک محدود رہنے پر مجبور تھے کیونکہ باہر نکلنا بھی ہلاکت کا باعث بن سکتا تھا۔ اکیس مئی کو ہونے والے سیزفائر کے بعد وہ باہر نکلے اور انہیں اپنے علاقے میں چہل قدمی کرنے کا موقع ملا تو انہیں اندازہ ہوا کہ اسرائیلی حملوں سے کتنی تباہی ہوئی ہے۔ اکثر افراد ان عمارتوں کے ملبوں کے گرد دکھائی دیئے جو اسرائیلی فضائی حملوں کے باعث گرائی گئی تھیں۔ کچھ علاقوں میں تو منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے باعث گلیاں بلاک ہو چکی تھیں۔ بلڈوزر چلانے والے اہلکار گھنٹوں یہ رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف رہے۔ ان کے لئے یہ مناظر شاید حیران کن نہ ہوں کیونکہ یہ سب کچھ ٹیلی ویژن چینلز پر متعدد مرتبہ دکھایا جا چکا تھا۔ خان یونس میں ہونے والے جنازوں میں کئی ہزار افراد نے شرکت کی۔ یہ جنازے میدانوں میں پڑھے گئے جس کے بعد جاں بحق ہونے والے جنگجوؤں کی لاشوں کو فلسطینی جھنڈوں میں لپیٹ کر قبرستان تک ریلی کی شکل میں لایا گیا اور اس دوران نعرے بازی بھی کی گئی تاہم اسرائیل اور حماس دونوں ہی فتح کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی رہنما ان عمارتوں کی فہرست دکھاتے ہیں جو ان کی جانب سے گرائی گئیں‘ حماس کے کمانڈرز اور جنگجوؤں کی ہلاکت کے دعوے کرتے ہیں اور اپنے آئرن ڈوم میزائل شکن نظام کی کامیابی کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب حماس کے لئے فتح کی تعریف دراصل بقا ہے۔ غزہ میں ان کے رہنما یحییٰ سنوار سیزفائر سے اگلے ہی روز اپنے خفیہ مقام سے فاتحانہ انداز میں باہر آئے۔ تاہم حماس اس دوران اپنی سیاسی مقبولیت میں اضافے سے بھی مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ غزہ سے ساٹھ میل دور یروشلم میں قائم الاقصیٰ مسجد میں نماز کے بعد حماس کے حق میں نعرے لگائے جاتے رہے ہیں۔ حماس فلسطینیوں تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی لڑائی کے لئے اور یروشلم کے حقوق کے لئے قربانیاں دینے کے لئے تیار ہے۔ اسرائیل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ یروشلم کا تمام حصہ اس کا حقیقی اور غیر منقسم دارالحکومت ہے۔ فلسطینی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔اسرائیل میں وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا ء کی جنگ دوبارہ سے لڑنے کی کوشش کریں گے جو وہ اس گیارہ روزہ تنازع سے قبل لڑ رہے تھے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کو بین الاقوامی طور پر فلسطینیوں کا رہنما مانا جاتا ہے کیونکہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل اُو) اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں جو مقبوضہ علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے اور یہی وہ اتھارٹی ہے جسے 1990ء کے اوسلو معاہدوں کے تحت ایک آزاد ریاست کی حکومت میں تبدیل ہونا تھا تاہم فلسطینی اپنے صدر کی کارکردگی سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ محمود عباس نے اس سال مئی میں ہونے والے انتخابات اس لئے منسوخ کر دیئے کیونکہ اس میں انہیں یقینی شکست کا خدشہ تھا۔ فلسطینیوں کو سال 2006ء سے اپنے صدر یا پارلیمان کو منتخب کرنے کے لئے ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس حماس کی جانب سے ایک سادہ سا پیغام کہ اس کے جنگجو ”مرتے دم تک یروشلم کے لئے لڑتے رہیں گے‘‘فلسطینیوں میں خاصا مقبول ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے صدر سے بین الاقوامی قانون میں غیرقانونی سمجھی جانے والی مقبوضہ زمین پر یہودی آبادکاریوں کو روکنا تو درکنار ان کی رفتار میں کمی بھی نہ لانے کے باعث سخت نالاں ہیں۔ نیتن یاہو پر اس وقت بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے اور الزامات کی نوعیت اتنی سنگین ہے کہ وہ اپنے پیشرو ایحود المرت کی طرح جیل بھی جا سکتے ہیں۔ دس مئی کو جب اس تنازع کا آغاز ہوا تو وزیرِ اعظم نتین یاہو اپنی نوکری کھونے کے قریب تھے۔ اسرائیل میں دو سالوں میں چار بے نتیجہ انتخابات ہوئے ہیں لیکن اس دوران نیتن یاہو ہی اقتدار میں موجود رہے ہیں۔ نیتن یاہو ایک اتحادی حکومت بنانے میں بھی ناکام رہے ہیں کیونکہ انہیں پارلیمان سے کل اکسٹھ ووٹ نہیں مل سکے جو اکثریتی حکومت بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ نیتن یاہو کے مرکزی حریف یائیر لاپید اتحاد بنانے کے لئے ووٹ اکھٹے کر رہے تھے اور وہ کچھ دنوں یا شاید گھنٹوں میں اس بات کا اعلان کرنے والے تھے کہ ان کے پاس حکومت قائم کرنے کے لئے ووٹ موجود ہیں۔ لاپید کے منصوبے اس تنازع کے باعث پورے نہیں ہو سکے تاہم ان کے پاس اب بھی موقع موجود ہے لیکن شاید اب دو سالوں میں پانچواں الیکشن ہی لڑا جائے گا۔ اسرائیل کو اپنے یہودی اکثریت اور فلسطینی عرب اقلیت کے ساتھ بقائے باہمی کے خاتمے سے بھی نبرد آزما ہونا ہو گا۔ فلسطینی عربوں کی آبادی یہاں بیس فیصد کے قریب ہے۔ نیتن یاہو کے منقسم کرنے والے بیانیے اور شدت پسند یہودی قوم پرستوں کی حمایت کے باعث صورتحال بد سے بدتر ہو گئی ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان اس سے قبل ہونے والی لڑائیوں کی طرح یہ سیزفائر بھی صرف ایک توقف ہے۔ یہ تنازع حل بھی نہیں ہو سکا۔ یہ منجمد بھی نہیں ہے۔ سیزفائر تب تک قائم رہے گا جب تک اگلا تنازع اس کی مضبوطی کا امتحان نہیں لے لیتا۔ نیا تنازع اسرائیلی پولیس کی جانب سے یروشلم میں فلسطینیوں پر تشدد کی صورت میں یا غزہ سے راکٹ فائر ہونے کی باعث کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس مقدمے کی صورت میں ہو جو مقبوضہ مشرقی یروشلم میں موجود ایک چھوٹے سے ضلع شیخ جراح میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں کے وہاں سے انخلا ء کے لئے کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی خاندانوں کو شیخ جراح سے نکالنا ہی اس تنازع میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بنا تھا۔اس مقدمے کا فیصلہ ملتوی کر دیا گیا تھا تاکہ معاملات کو ٹھنڈا کیا جا سکے تاہم اس مقدمے کو خارج نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے فیصلے ایک نہ ایک دن سامنے آئے گا۔ اسرائیل کا عدالتی ٹائم ٹیبل شاید اس سیز فائر کو برقرار رکھنے کے لئے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: واسع عظیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)