نواز لیگی سیاست اور مستقبل۔۔۔۔۔

سیاسی طوفان گزرچکا ہے اور بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے اور اب دارالحکومت پر چڑھائی کرنے کی باتیں بھی نہیں کی جارہی ہیں۔ اب واپس معمول کی سیاست شروع ہوچکی ہے اور آئندہ عام انتخابات کو ہدف بنالیا گیا ہے۔ اب چچا کی واپسی کے بعد بھتیجی نے خود کو منظر سے ہٹا دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی سیاست میں خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔  اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر حملے تو اب بھی جاری ہیں لیکن نظام گرانے کے حوالے سے مزید کوئی بات نہیں کی جارہی۔ شہباز شریف کے آنے کے بعد حکمت ِعملی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ٹوٹنے اور عوامی تحریک کے ذریعے حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد یہ تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس اتحاد کے ٹوٹنے کی ایک وجہ مریم نواز کی سخت گیر پالیسی تھی۔ وہ اپنے چچا اور کزن کی عدم موجودگی میں جماعت کا چہرہ بن چکی تھیں۔ بلاشبہ انہیں شریف خاندان کی سیاسی میراث کا وارث سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے جماعت کو ایک نئی جان تو دی لیکن ان میں سیاسی بلوغت کی کمی پائی جاتی ہے۔ یہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ اختیار کرکے موجودہ نظام کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک شروع کرسکیں گے۔ نہ صرف یہ حکمتِ عملی حکومت گرانے میں ناکام رہی بلکہ اس نے حزبِ اختلاف کو بھی کمزور کردیا۔ یہ بات واضح ہے کہ نواز لیگ کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں سے متعلق دباؤ کے سبب نہ صرف ’پی ڈی ایم‘ ٹوٹ گئی بلکہ ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی دوریوں میں اضافہ ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں جماعت کی شمولیت سے مسلم لیگ (نواز) اور حزب ِاختلاف کو کہیں زیادہ سیاسی فوائد میسر آئے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے کیا جانے والا کلین سوئپ پی ٹی آئی حکومت کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی مسلم لیگ (نواز) کو یہ احساس ہوا ہو کہ نظام گرانے کی کوشش کرنے کے بجائے انتخابی سیاست پر توجہ دینا زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے تاہم ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے کئے جانے والے بڑے عوامی اجتماعات کے بغیر انتخابی کامیابیاں ممکن نہیں تھیں لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ انتخابی مقابلوں نے مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھادیا ہے لیکن اگر مسلم لیگ (نواز) کی قیادت مختلف رویہ اپناتی تو شاید ان اختلافات سے بہتر طریقے سے نمٹتی اور پی ڈی ایم کو ٹوٹنے سے بچالیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں مسلم لیگ (نواز) کے گڑھ لاہور میں منعقدہ ریلی میں عوام کی خاطر خواہ شرکت نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ (نواز) کی حکمت ِعملی کو تبدیل ہونا ہی تھا۔ درحقیقت مسلم لیگ (نواز) کے لئے حکومت ختم کرنے کیلئے یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا۔  حکومت کو مستعفی ہونے کیلئے اکتیس دسمبر کی ڈیڈ لائن دینا بھی بڑی غلطی تھی جس سے پارٹی کی حکمت ِعملی پر سوالات کھڑے ہوئے۔ اس تمام صورتحال میں مسلم لیگ (نواز) کے اندر موجود اختلافات کھل کر سامنے آئے اور حزبِ اختلاف کے اتحاد میں موجود دوریوں میں بھی مزید اضافہ ہوا۔ ’پی ڈی ایم‘ کی کچھ جماعتوں بشمول مسلم لیگ (نواز) نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر زور دیا تاہم پیپلزپارٹی کی رضامندی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ لاہور میں ہونے والی ناکامی اور پی ڈی ایم میں پڑنے والی دراڑ سے حکومت کو وہ سیاسی فائدہ حاصل ہوا جس کی اسے شدید ضرورت تھی۔ شہباز شریف کی قید کی وجہ سے مکمل اختیارات مریم نواز کے ہاتھ میں تھے لیکن یہ بات واضح تھی کہ مریم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بڑے عوامی اجتماعات منعقد کرنے کی اہلیت کے باوجود عوامی تحریک کی مدد سے حکومت گرانے کی ان کی حکمت ِعملی کام نہیں کر رہی تھی۔ اس دوران ضمنی انتخابات میں جیت نے جماعت کے اندر محتاط حکمت ِعملی اختیار کرنے کی رائے کو مضبوط کیا۔ جماعت کے اندر کئی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ نظام کو چھیڑے بغیر پنجاب میں باآسانی اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت میں واپس آ سکتے ہیں۔ کئی رہنماؤں کیلئے اسٹیبلشمنٹ مخالف حکمت ِعملی پر نظرثانی کرنا ضروری تھا۔ جماعت کا بیانیہ پہلے ہی کمزور پڑچکا تھا  شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی سے سمت کی تبدیلی کو مزید تقویت ملی۔ اگرچہ پارٹی کی مجموعی قیادت نواز شریف کے پاس ہی ہے لیکن زمین پر کنٹرول شہباز شریف کے پاس ہے۔ ان کا انداز بہت مختلف ہے۔ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو دعوت دے کر پی ڈی ایم کو دوبارہ متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو اتحاد سے باہر نکال دیا گیا کیونکہ انہوں نے حزب اختلاف کی حکمت ِعملی پر مسلم لیگ (نواز) سے اختلاف کیا تھا۔ اب ان دونوں جماعتوں کا دوبارہ اس اتحاد کا حصہ بننا آسان نہیں ہوگا لیکن یہ کئی معاملات پر ایوان کے اندر مسلم لیگ (نواز) کا ساتھ دے سکتی ہیں تاہم یہ بات حتمی ہے کہ شہباز شریف کی رہائی کے بعد حکمت ِعملی میں آنے والی تبدیلی سے جماعت کو ٹوٹنے کا خطرہ نہیں۔ جماعت میں اندرونی رسہ کشی کے باوجود جماعت کے ٹوٹنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات میں دونوں بیانیے ہی مسلم لیگ (نواز) کیلئے مفید ہیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی ووٹ کے حصول کیلئے ضروری ہیں لیکن شہباز شریف کی مفاہمانہ حکمت ِعملی اقتدار حاصل کرنے کیلئے معاون ہوگی۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں ذہنی طور پر انتخابات کیلئے تیار ہیں۔ پنجاب میں کامیابی کے حوالے سے مسلم لیگ ن پُراعتماد ہے۔ پی ٹی آئی کی اندرونی چپقلش سے بھی مسلم لیگ (نواز) کا حوصلہ بڑھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے میں کمی لانا واضح طور پر مسلم لیگ (نواز) کی انتخابی حکمت ِعملی کا حصہ ہے جو اس کے دوبارہ اقتدار کے حصول میں مددگار ہوگا لیکن ابھی اگلے انتخابات میں خاصا وقت باقی ہے  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)