پاکستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے حوالے سے سامنے آنے والے حالیہ اعداد و شمار کو فی الحال ایک طرف رکھ دیں اور اسی طرح آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے آئندہ برس شرح نمو کو بڑھانے کی حکومتی مشکلات پر بھی توجہ نہ دیں۔ یہاں کچھ ایسا ہونے جارہا ہے اور اگر معاملات طے پاگئے تو یہ ایک گیم چینجر ہوسکتا ہے۔ اٹھائیس اپریل کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سیکرٹری دفاع لائڈ آسٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فوج کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ اس گفتگو میں ”باہمی دلچسپی کے امور خطے کی سکیورٹی صورتحال بشمول افغان امن عمل میں ہونے والی حالیہ پیش رفت‘‘امریکی فوج کے انخلاء اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون‘ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکی سیکرٹری دفاع نے ”دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس گفتگو میں ”افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔‘‘بیان کا اختتام اس بات پر ہوا کہ دونوں جانب سے ’خطے میں استحکام کی اہمیت اور اس خطے میں مشترکہ مقاصد کے لئے امریکہ اور پاکستان نے ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔اس سے تقریباً ایک ماہ پہلے اکیس مارچ کو انہی دونوں شخصیات کے مابین گفتگو ہوئی تھی۔ امریکی محکمہئ دفاع کے بیان کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں موجود ڈھائی ہزار افواج کے انخلا ء کو تیز کردیا ہے اس دوران ”سیکرٹری آسٹن نے پاکستان کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات قائم رکھنے کے امریکی عزم کا بھی اعادہ کیا“۔ بیان کے اختتام پر کہا گیا کہ ”سیکرٹری آسٹن نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ وہ مشترکہ مفادات کے شعبوں میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں“۔ اس کے بعد گزشتہ ہفتے خبر آئی کہ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے جنیوا میں اپنے امریکی ہم منصب جیک سولیوان سے ملاقات کے بعد ٹوئیٹ کی کہ ’دونوں جانب سے پاک امریکہ دوطرفہ تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا‘۔ اس ملاقات کے اگلے ہی روز آرمی چیف کا امریکی سیکرٹری دفاع سے ایک بار پھر ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ اس حوالے سے امریکہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سیکرٹری دفاع نے ’افغان امن مذاکرات میں پاکستان کی مدد کو سراہا اور پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیاآخری بار آرمی چیف نے مارچ دوہزاربیس میں امریکی سیکرٹری دفاع سے بات چیت کی تھی۔ اس وقت ٹرمپ انتظامیہ موجود تھی اور لائڈ آسٹن کی جگہ مارک ایسپر تھے۔ وہ بات چیت امریکی حکومت اور افغان حکومت کے مابین مشترکہ اعلامیے پر دستخط ہونے اور طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے پر دستخط ہونے کے تین ہفتے بعد ہوئی تھی۔ بات چیت کے بعد جاری ہونے والے بیان میں صرف امریکہ کے ’حکومت ِپاکستان کے ساتھ طویل مدتی اور سکیورٹی کے حوالے سے باہمی طور پر فائدہ مند شراکت داری کے عزم‘ کا ذکر کیا گیا۔ اس بیان میں دوطرفہ تعلقات کا کوئی ذکر نہیں تھا صرف ’مستقبل میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون کے جاری رہنے‘ کا ذکر تھا۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح پر بڑھتے ہوئے رابطے اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ کسی اہم معاملے پر بات چیت جاری ہے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کے بعد ہونے والی ٹیلیفونک بات چیت کے حوالے سے جاری شدہ امریکی بیان میں دوطرفہ تعلقات کا ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی کوششیں کچھ رنگ ضرور لا رہی ہیں۔ اس وقت ہم حتمی طور پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کو گیارہ ستمبر کی ڈیڈ لائن تک افغانستان سے افواج کے انخلا ء کے لئے پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ایسا افغانستان چاہتا ہے جہاں دوبارہ جنگ شروع نہ ہوجائے۔ وہ ان مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کی مدد کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اس بات چیت میں آرمی چیف بذات خود شامل ہیں۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ ’دوطرفہ تعلقات کو فروغ‘ دینا چاہتا ہے جس میں سکیورٹی کے حوالے سے تعاون اور ’دیگر شعبوں‘ یعنی معاشی امداد میں تعاون شامل ہے اور یوں پاکستانی حکومت کی جانب سے ’جیو اکنامکس‘ کی طرف پیش قدمی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔ اس بات چیت کے اثرات دور رس ہوسکتے ہیں (اگر بات وہاں تک پہنچتی ہے تو)۔ پاکستان میں ہونے والا ہائبرڈ تجربہ تو کام نہیں کر رہا۔ سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ حکومت اپنے بل بوتے پر موجودہ مشکلات سے نہیں نکل سکتی۔ یہ ان مشکلات میں جتنی دیر تک گھری رہے گی‘ مستقبل بھی اتنا تاریک ہوتا جائے گا۔ اس ہائبرڈ تجربے کے جاری رہنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ سالوں تک تیز رفتار ترقی ہو جیسا کہ مشرف دور میں یا پھر بعد میں نواز شریف کے دور میں ہوئی تھی۔ چار فیصد کی شرح نمو حکومت کو اس مقام تک نہیں لے جائے گی۔ پاکستان میں جب بھی تیز رفتار ترقی ہوئی تو اس کے اجزا ء یکساں ہی ہوتے تھے یعنی روپے کا اوور ویلیو ہونا‘ شرح سود کا کم ہونا‘ حکومتی اخراجات میں اضافہ اور صنعتوں کے لئے ٹیکس ریلیف۔ کچھ مالی امداد‘آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا ان تمام چیزوں کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اگر خاطر خواہ امداد مل جائے تو حالات اتنی ہی جلدی تبدیل ہوسکتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)