پاکستان میں جس آبی قلت کے بارے میں ماہرین ایک عرصے سے توجہ دلا رہے تھے وہ بالآخر آ پہنچی ہے اور سندھ سے خیبرپختونخوا تک چاروں صوبوں میں کاشتکار خاطرخواہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ سندھ کے کاشت کار اِن دنوں کپاس اور مرچ کی فصل لگائے ہوئے ہیں لیکن پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ فصلیں سوکھ گئی ہیں۔ اِن علاقوں میں عموماً چاول کاشت ہوتے ہیں لیکن لوگ اپنی زمین کے پچیس فیصد پر کپاس اور مرچ کی فصل لگاتے ہیں جن کو وقت پر پانی نہیں مل سکا ہے۔ سندھ کے نہری نظام میں بدین کا شمار آخری یا ٹیل کے علاقوں میں ہوتا ہے‘ جس سے آگے سمندر شروع ہو جاتا ہے۔ بدین ضلع کو دو نہروں اکرام واہ اور پھلیلی کے ذریعے پانی کی فراہمی کی جاتی ہے جن میں سے اکرم واہ کا بہاؤ بارہ مہینے جاری رہتا ہے‘ اس کا کمانڈ ایریا تین لاکھ ایکڑ ہے جبکہ پھلیلی کا کمانڈ ایریا دس لاکھ سے زائد ہے اور دونوں نہروں کے علاقے میں چاول اور گنے کی کاشت ہوتی ہے۔ گنے کی کاشت نومبر سے فروری تک جاری رہتی ہے جبکہ چاول کی نرسری اپریل میں لگائی جاتی ہے‘ اگر پانی کی قلت ہو تو پھر اپریل میں اس کا بیج لگایا جاتا ہے لیکن اس سال ایک طرف گنے کی فصل متاثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب چاول بھی نہیں لگ سکا ہے۔پانی کی قلت سے متعلق شکایت صرف سندھی کاشتکاروں کی نہیں۔ محکمہئ موسمیات پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان کے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً چالیس سے تیس فیصد اور گذشتہ پانچ برسوں کے اوسط کے مقابلے میں تقریباً پینتالیس فیصد سے لے کر بیس فیصد تک کم ہے۔ اس اچانک ظاہر ہوئی آبی قلت کے باعث خیبر سے سندھ تک کاشتکار پریشان ہیں کیونکہ ان کی بوئی ہوئی فصلوں کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے۔ پاکستان میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق تربیلا ڈیم کی سطح کم ہونے سے یہ قلت مزید شدید ہو سکتی ہے۔ اس وقت تربیلا میں موجود پانی کی سطح چودہ سو فٹ ہے جبکہ اس کا ڈیڈ لیول تیرہ سو بانوے فٹ ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت پاکستان میں چار دریاؤں‘ دریائے سندھ‘ کابل‘ جہلم اور چناب میں گذشتہ سال کے مقابلے میں پانی کا بہاؤ پچاس فیصد سے بھی کم ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس موسم کے دوران پاکستان میں پانی کا زیادہ تر انحصار برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلنے سے حاصل ہونے والے پانی پر ہوتا ہے۔ ملک کے شمالی علاقہ جات میں گلیشیئر درجہ حرارت بڑھنے سے پگھلتے ہیں مگر اس سال وہاں درجہ حرارت کم رہا جس وجہ سے گلیئشر سے ہمیں اتنا پانی حاصل نہیں ہو سکا ہے یہ واضح طور پر موسمیاتی تبدیلی ہے۔ جس کا پاکستان میں شدید تجربہ ہو رہا ہے۔ تربیلا ڈیم کا زیادہ تر انحصار گلیشیئر کے پانی پر ہے جبکہ منگلہ ڈیم کا زیادہ انحصار بارشوں کے پانی پر ہے۔ اس وجہ سے منگلا سے زیادہ پانی چھوڑا جا رہا ہے مگر یہاں عمومی اوسط سے بارشیں بھی کم ہوئی ہیں۔ جس وجہ سے منگلہ میں بھی پانی کم ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کا کہنا ہے کہ خریف میں پانی کی قلت سترہ فیصد ہے جبکہ تربیلا ڈیم کی سطح کم ہونے سے یہ قلت مزید شدید ہو سکتی ہے۔ اِس وقت پنجاب کو نوے ہزار چھ سو کیوسکس‘ سندھ کو چون ہزار کیوسکس‘ بلوچستان کو آٹھ ہزار کیوسکس اور خیبرپختونخوا کو تین ہزار کیوسکس پانی کی فراہم ہو رہا ہے۔ محکمہ زراعت سندھ کو خدشہ ہے کہ رواں سال تینوں بڑی فصلیں گنا‘ کپاس اور چاول متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ سندھ میں پانی کی قلت چالیس فیصد جبکہ کوٹڑی بیراج پر یہ قلت ساٹھ فیصد تک ہے۔ گڈو بیراج‘ سکھر بیراج اور کوٹڑی بیراج کے کمانڈ ایریا میں اس وقت تین فصلیں خطرے میں ہیں۔ گنا پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ رہا ہے‘ چاول کے بعد یہ دوسری فصل ہے جس کو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر کپاس ہے جو پہلے ہی ٹارگٹ سے کم لگائی گئی تھی‘ وہ بھی پانی کی قلت سے متاثر ہے تیسری فصل چاول ہے جس کی نرسری مئی میں لگ جاتی ہے اور اس میں بیج لگایا جاتا ہے لیکن پورے سندھ میں ابھی تک بیج نہیں لگایا جا سکا۔ چاول کی فصل کا انحصار تو موسمی نہروں پر ہوتا ہے اور وہ کاشت کار جو صرف خریف کی فصل لیتا ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ سال دوہزاراُنیس میں قبل از وقت پانی کی دستیابی کی وجہ سے اَسی ہزار ہیکٹرز پر چاول کی کاشت کی گئی تھی اور کاشت کاروں کو اس سے فائدہ ہوا تھا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال دوہزاربیس میں دو لاکھ چھیاسی ہزار ہیکٹرز پر گنے کی کاشت کی گئی تھی۔ کپاس بروکرز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال سندھ میں کپاس کی پیداوار میں اڑتیس فیصد کمی ہوئی تھی۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ملک کے دریاؤں اور ذخائر میں دستیاب پانی کی تقسیم کا ذمہ دار ہے۔یہ تقسیم 1991ء کے پانی کے معاہدے اور بعض اوقات عراضی بنیاوں پر تشکیل دئیے گئے فارمولے کے تحت کی جاتی ہے۔ اس اتھارٹی میں چاروں صوبوں اور وفاق کی نمائندگی ہوتی ہے اور اتھارٹی کے چیئرمین شپ باری باری ہر صوبے کے حصے میں آتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں پانی کی قلت کی وجہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کی شدید کمی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت دستیاب پانی کا چالیس فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان محض دس فیصد ذخیرہ کرتا ہے۔ ارسا کے مطابق پاکستان اگر دستیاب پانی کا دس فیصد بھی ذخیرہ کر لے تو یہ صلاحیت تیس دن کی ہے۔ اس دوران اگر موسمی تبدیلی جیسے حالات پیدا ہوجائیں تو پھر پاکستان مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ ارسا ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سالانہ دو کروڑ نوے لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح چھیاسی لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔ پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ اکیس ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہر سال ضائع ہونے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے منگلا ڈیم جتنے تین بڑے ڈیم درکار ہیں جبکہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا میں بھی مٹی بھرنے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر شاکر سعید۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام