حساب کتاب۔۔۔۔۔۔

کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات پر قابو پانے کیلئے پندرہ سو ارب روپے کی ضرورت ہے۔ مارچ  2020ء میں وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے ایک اجلاس کی صدارت کی جس نے کورونا وبا کے معاشی نقصانات کم کرنے کے لئے 1200 ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔ اپریل 2020ء میں ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ نے کورونا وبا کے منفی اثرات کم کرنے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کیلئے 1.386 ارب ڈالر کی فوری امداد دی۔ اُسی ماہ عالمی بینک نے بھی 153ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ مئی 2020 میں یورپین یونین کے سفیر نے 150ملین یوروز امداد دینے کا اعلان کیا۔ جون 2020ء میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 300 ملین ڈالر دینے کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور یہ سبھی امدادی پیکجز کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا کہ کورونا وبا کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جائیں لیکن کورونا وبا پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب ضرور رکھا جائے۔ کیا پاکستان حکومت نے کورونا وبا کیلئے ملنے والی امداد کا حساب کتاب رکھا ہے؟ آئی ایم ایف نے معاشی اصلاحات کے ساتھ شفافیت‘ عوامی احتساب اور ادارہ جاتی حاکمیت پر عمل درآمد کرنے پر بھی زور دیا جو حساب کتاب رکھنے کے سلسلے میں بنیادی ضرورت ہیں۔ کیا حکومت پاکستان نے عالمی ادارے کی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے حساب کتاب رکھا ہے؟
سولہ فروری کو ’آئی ایم ایف‘ اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ کو اِس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ کورونا وبا کے سلسلے میں ملنے والی امداد کو شفافیت کے ساتھ خرچ کرے گی اور اِن اخراجات کا حساب رکھا جائے گا اور ’آڈیٹر جنرل آف پاکستان‘ اُس تمام خریداری کا دوبارہ آڈٹ کرے گا جو کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے خریدی جائیں گی اور یہ عمل اپریل کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے اِس بات کا بھی عہد کیا کہ کورونا وبا کے دور میں حکومت جس قدر بھی خریداری کرے گی اُسے بذریعہ ویب سائٹ مشتہر کیا جائے گا اور سرکاری خریداری کے نگران ادارے ’پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری ایجنسی‘ یہ کام اپریل کے آخر تک مکمل کر لے گی۔ کیا حکومت نے ایسا ہی کیا؟آڈیٹر جنرل کے دفتر کو یقین ہے کہ اُنہوں نے آڈٹ بروقت مکمل کر لیا ہے اور اگر آڈیٹر جنرل کا یقین کیا جائے تو اُنہوں نے کورونا وبا کیلئے خریداریوں میں بے قاعدگیوں کا سراغ لگایا ہے جو وزیراعظم کی جانب سے 1200 ارب روپے کا ریلیف پیکیج کے ضمن میں کی گئی خریداریوں سے متعلق ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ کورونا وبا کیلئے وزیراعظم کے امدادی پیکیج کے تحت کی جانے والی خریداریوں کی تفصیلات حسب وعدہ ظاہر نہیں کی گئیں اور نہ ہی آڈٹ کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی گئی ہیں جیسا کہ عالمی امدادی اداروں سے وعدہ کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ ہنگامی حالات میں اُن لوگوں کو بدعنوانیاں کرنے کا زیادہ آسانی سے موقع مل جاتا ہے جو حالات کی سنگینی پر نظریں رکھے ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ حکومت فوری خریداری کرنا چاہتی ہے۔ اِس سلسلے میں ’آئی ایم ایف‘ نے سیرا لوئن (Sierra Leone) کی مثال دی جہاں ایبولا (Ebola) وبا کیلئے امداد فراہم کی گئی اور اِس امداد سے کی گئی خریداریوں کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ حکومت نے نجی اداروں اور تاجروں سے خریداریاں کیں اور اِن خریداریوں کا حساب کتاب نہیں رکھا گیا۔
پندرہ سو ارب روپے کو اگر پاکستان کے ہر خاندان پر مساوی تقسیم کیا جائے تو یہ 50 ہزار روپے فی خاندان بنتا ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پندرہ سو ارب روپے پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 300 ارب روپے زیادہ ہوتے ہیں۔ پندرہ سو ارب روپے تعلیم پر ہونے والے سالانہ اخراجات سے بھی 500 ارب روپے زیادہ ہے اور صحت کے شعبے پر ہونے والے اخراجات سے 1 ہزار ارب روپے زیادہ ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)