امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کردار کو ہمیشہ سراہا جاتا ہے لیکن جب امریکہ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کی بات ہوتی ہے تو ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ پاکستان کی مشکلات کا عملاً احساس کیا گیا۔ نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے سالانہ بجٹ کی تجاویز پیش کی ہیں۔ جس میں اخراجات کا تخمینہ چھ کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا آخری بجٹ چار کھرب آٹھ ارب ڈالر کا تھا جبکہ ان کے دور کے تمام بجٹ خسارے کے ساتھ تھے۔ صدر جوبائیڈن نے بجٹ میں سب سے زیادہ رقوم سماجی شعبوں اور ماحولیاتی تبدیلی کیلئے رکھی ہیں جبکہ پینٹاگون کیلئے ڈیرھ کھرب رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کیلئے ملٹری ایجوکیشن‘ ٹریننگ پروگرام کی رقم مختص کر دی۔ تربیتی پروگرام کیلئے صرف پینتیس لاکھ ڈالر رکھے گئے ہیں۔ پاکستان کے لئے اکنامک سپورٹ فنڈ کی رقم میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ اکنامک سپورٹ فنڈ کے تحت چار کروڑ پچھتہر لاکھ ڈالر کی تجویز ہے۔ پاک افغان سرحد پر تجارتی سرگرمی بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ منشیات کی روک تھام کیلئے دس کروڑ اٹھتہر لاکھ ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ رقم کا ایک حصہ پاک افغان بارڈر سکیورٹی پر لگایا جائے گا جبکہ ایک حصہ مکران ساحل کی سکیورٹی پر لگایا جائے گا۔ پاکستان میں صحت کی سہولتوں کیلئے ایک کروڑ اَسی لاکھ ڈالر کی تجویز ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو پاکستان کی شدت سے ضرورت محسوس ہوئی۔ پاکستان نے افغانستان پر یلغار کیلئے امریکہ کو اپنی سرزمین پیش کر دی۔ دفاعی تنصیبات اور شاہراہوں کے استعمال کی غیر مشروط طور پر اجازت دیدی۔ امریکہ نے اِن کے استعمال سے افغانستان کو تاراج کرنے کے بعد قبضہ کر لیا۔ طالبان حکومت ختم ہو گئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو کی افواج کے مقابلے کیلئے پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ آج امریکہ کو افغانستان پر قابض اور طالبان کواقتدار کے ایوانوں سے نکلے کر ہوئے بیس سال ہو گئے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ملک میں امن قائم نہ کر سکے اور بالآخر ایک معاہدے کے تحت سنگلاخ پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے بعد نامراد واپس جا رہے ہیں۔ امریکہ کا امن معاہدہ بھی طالبان کے ساتھ ہوا ہے۔ پاکستان نے امن معاہدے میں کردار ادا کیا ہے۔ فریقین انتہاؤں پر اور ایک دوسرے کی بات سننے پر تیار نہ تھے۔امریکہ شروع میں افغان وار میں پاکستان کے کردار سے مطمئن تھا لیکن یہ اطمینان رفع ہوتا چلا گیا اور پاکستان کی بجائے امریکہ کے تعلقات اور دوستی کا جھکاؤ بھارت کی طرف دیکھنے میں آیا۔ یوں پاک امریکہ خوشگوار تعلقات پہلے سردمہری میں بدلے پھر کشیدگی آئی اور ایک موقع پر امریکہ کی طرف سے پاکستان کو جنگ کی بھی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ پاکستان افغان وار میں ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا تھا۔ امریکہ کیلئے یہ ناقابل قبول تھا مگر پاکستان نے اس معاملے میں سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس سے حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر جا سکتے تھے تاہم پاکستان کے سمجھانے پر امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہوا‘ اور امن معاہدے کی بیل منڈھے چڑھ گئی۔ امریکہ پاک تعلقات میں اونچ نیچ آنے کے باوجود پاکستان کے دفاعی معاملات کا انحصار زیادہ تر امریکہ پر ہی رہا ہے۔ جب سے امریکہ کا مکمل جھکاؤ بھارت کی طرف ہوا ہے تو پاکستان دفاع کیلئے دیگر ممالک سے بھی رابطے کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ کئی دفاعی امور میں شراکت داری کی گئی ہے۔ روس کے ساتھ بھی معاہدے ہو رہے ہیں۔ امریکہ سے بہرحال لاتعلقی بھی نہیں کی گئی، یہی مناسب پالیسی ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر حملے کیلئے کوئی پیشگی شرط رکھی نہ معاوضہ طلب کیا۔ معاوضے کی بات کی جائے تو ترکی نے ایک ہوائی اڈا دینے کے مطالبے پر امریکہ سے پچپن ارب ڈالر طلب کئے تھے۔ امریکہ نے پاکستان کو افغان وار کے دوران مالی امدادی‘ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام سے بھی ادائیگیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کبھی چلتا اور کبھی بند بھی ہو جاتا تھا۔ سال دوہزارسترہ سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے جواز پر یہ فنڈنگ روکی ہوئی ہے۔ تمام مدات میں پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مختلف اوقات میں بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ادائیگی کی گئی۔ امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کے بعد دہشت گردی کی جنگ بری طرح پاکستان میں پھیل گئی۔ اَسی ہزار پاکستانی اس جنگ کا ایندھن بنے اور انفراسٹرکچر کی تباہی کی مد میں ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ امریکہ کی معیشت مضبوط ہے۔ وہ پاکستان کا نقصان پورا کر دے جو اس مبینہ دہشت گردی کی عالمی جنگ کا حصہ بننے کے باعث ہوا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امریکی بجٹ میں پاکستان کیلئے جو ’واجبی رقم‘ مختص کی گئی ہے وہ نہایت قلیل ہے۔ ایسی رقم کی جنرل ضیا الحق کو بھی پیشکش کی گئی جسے انہوں نے مونگ پھلی کے چند دانوں سے تشبیہ دی تھی۔ پاکستان کا ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ امریکی بجٹ میں جو رقم مختص کی گئی دوہزار کروڑ ڈالر بھی نہیں بنتی۔ امریکہ سے دوستی پاکستان کے قومی مفاد میں کتنی ضروری ہے جہاں اِس بات کا فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے‘ وہیں امریکہ کی قیادت کو بخوبی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ پاکستان سے غیرمشروط تعاون کی اُمید نہ رکھے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اشرف ملیغم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)