پاکستان کیلئے کشمیر ’شہ رگ‘ جیسا اہم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور حکومت میں کشمیر سے متعلق قومی حکمت عملی ایک رہتی ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے بھی دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی تک بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال نہیں کئے جائیں گے۔عوام سے ٹیلی فونک رابطے بعنوان ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ ہے‘ کے دوران عوام میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ”کشمیریوں کے خون کی قیمت پر بھارت سے تجارت نہیں ہو سکتی۔“ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ضمن میں جو کچھ کہا وہ محض سیاسی بیان نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی بھی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو یہ بات ایک اٹل حقیقت کے طور پر موجود ہے اور رہے گی کہ کشمیر کے معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں کسی بھی قسم کی کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستانی حکومت کا ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام کا بھی مسئلہ ہے اور مختلف مواقع پر عوام کی طرف سے اس حوالے سے جذبات کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے جو حکومت کو یہ باور کرواتا ہے کہ کشمیر پر کسی بھی قسم کی سودے بازی قبول نہیں کی جائے گی۔ پاکستان اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کر کے عالمی برادری کو یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ محض جغرافیائی حدود کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے جس کو حل کئے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن ہی نہیں۔ خطے میں مختلف مواقع پر مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر ہونے والی کشیدگی اس بات کی گواہ ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے کو نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دنیا کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں اور ان کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو اس کے اثرات صرف اس خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا ان کی لپیٹ میں آئے گی۔ اس سلسلے میں یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کئی ممالک بھارت کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسے معصوم اور نہتے کشمیریوں پر مظالم جاری رکھنے کا حوصلہ ملتاہے۔ تقریباً دو سال قبل پانچ اگست دوہزاراُنیس کو بھارت نے مسلم دشمنی کا ایک اور ثبوت دیتے ہوئے آئین کے ارٹیکل 370 اور 35اے کو منسوخ کرکے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔ اس متنازع اقدام کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے۔ اسی سلسلے میں دونوں ملکوں کے مابین تجارتی روابط بھی معطل ہوگئے۔ اس یک طرفہ جبری اقدام کے بعد بھارت نے گزشتہ چھ سو روز سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرہ کیا ہواہے جس کی وجہ سے مظلوم کشمیری عوام اپنے گھروں میں قید ہیں۔ فوجی محاصرے کے ذریعے مقبوضہ وادی میں لوگوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کر لئے گئے ہیں۔ عالمی برادری اس صورتحال سے واقف ہے اور اس سلسلے میں کئی ممالک بھارت کے اس اقدام کی مذمت بھی کرچکے ہیں لیکن اقوام عالم کی طرف سے عملی طور پر اب تک کوئی ایسا واضح اقدام سامنے نہیں آیا جو بھارت کو اس کے غیر انسانی اقدامات سے باز رکھ سکے۔ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں جن پر عمل درآمد کرانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلے پر پہلی بار بات چھ جنوری 1948ء کو ہوئی تھی۔ سلامتی کونسل میں اس حوالے سے سترہ جنوری 1948ء کو پہلی قرارداد منظور کی گئی جسے قرارداد 38کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا گیا اور بھارت کو رائے شماری کے اہتمام کا کہا گیا۔اس کے بعد 1964ء تک اس سلسلے میں ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور ہوئیں اور اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں یہ مسئلہ کئی بار زیر بحث آچکا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان دونوں بین الاقوامی فورمز پر زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا‘ البتہ اقوام متحدہ میں بارہا زیر بحث آنے کی وجہ سے یہ مسئلہ دنیا بھر میں اُجاگر ضرور ہوا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ صرف جنوبی ایشیاء ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے۔ اس مسئلے کو جس قدر جلد حل کیا جائے اس قدر یہ خطے اور عالمی امن کیلئے بہترہے۔ اس وقت پوری دنیا مسئلہ کشمیر سے آگاہ تو ضرور ہے لیکن اس مسئلے کا مستقل اور پائیدار حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے جب عالمی ضمیر کو مسلسل جھنجھوڑا جائے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے مختلف فورمز پر اس کی اپنی ہی قراردادوں کے حوالے دے کر یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔اور یہی وقت ہے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کو حل کرنے میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے اور اپنی کھوئی ساکھ کوبحال کرے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حالیہ بحران کے دوران اقوام عالم نے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے جنرل اسمبلی کے صدر نے بھی اقوام متحدہ کی ساکھ کی بحالی کی بات کی۔ جہاں تک کشمیر کے مسئلے کا تعلق ہے تو یہ اقوا متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور یہ دو جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ اور اس وقت یہ ایک طرح سے انسانی المیہ بھی ہے کہ کشمیر میں طویل ترین کرفیو کے نفاذ نے اس وادی کو عملی طور پر ایک قیدخانے کی شکل دی ہے اور یہاں پر بسنے والے ایک یہاں قید ہیں۔ کشمیر میں اعلانیہ طور پر بھارت انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے اور یہ اب عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کے حوالے سے بھارت سے باز پرس کرے اور جس طرح اسرائیل بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا فلسطین میں ارتکار ب کررہاہے اسی طرح بھارت بھی کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہور ہا ہے۔ افسوس کامقام ہے کہ ایک دنیا کو ایک منڈی کی نظر سے دیکھنے والے سرمایہ کار ممالک ان مظالم پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی قیادت اور مختلف ممالک میں موجود ہمارے سفارت کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کو اس مسئلے کی حساسیت سے آگاہ کریں اور دنیا کو یہ باور کروائیں کہ کشمیر میں معصوم اور نہتے لوگوں پر بھارت جو مظالم ڈھا رہا ہے پاکستان اس پر خاموش نہیں بیٹھے گا اور وہ کشمیری عوام کی دامے درمے قدمے سخنے ہر ممکن مدد جاری رکھے گا۔ (مضمون نگار سابق سفارتکار ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ظہور عظمت۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام