چالیس سال قبل کراچی سے پشاور جانے والی پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کی پرواز کو اغوا کیا گیا تھا۔ اغوا کاروں کے سرغنہ مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے جمہوریت کی بحالی کیلئے اِس قسم کی طاقت کے استعمال کو درست تصور کیا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے والد (ذوالفقار علی بھٹو) کی پھانسی کا بدلہ بھی لینا چاہتے تھے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا شدت پسند شخص سلام اللہ ٹیپو الذوالفقار کا ایک اہم کارکن تھا۔ 1980ء میں ٹیپو جب کابل پہنچا تو اس کے کچھ دیر بعد ہی مرتضیٰ اور شاہنواز نے طیارہ اغوا کرنے سے متعلق ٹیپو کی تجویز پر غور شروع کردیا۔ اپنے منصوبے پر مرتضیٰ کی منظوری ملنے کے بعد ٹیپو پاکستان واپس آیا۔ اس دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے الذوالفقار کے دو کارکنوں کو ٹیپو کے ساتھ طیارہ اغوا کرنے کیلئے کراچی بھیج دیا گیا تھا تاہم جس وقت طیارہ اغوا کیا جانا تھا اس سے تھوڑی دیر پہلے ہی مرتضیٰ نے منصوبے پر عمل رکوا دیا۔ مرتضیٰ نے لندن میں بھٹو خاندان کے ایک فرد کو فون کرکے ٹیپو کو یہ پیغام دینے کو کہا کہ ’تم جو کام کرنے جارہے ہو اسے کرنے سے رک جاؤ۔‘ اس پیغام کو آگے بڑھا دیا گیا اور پنجاب سے آنے والے دونوں کارکنوں کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ٹیپو جامعہ کراچی میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن کو قتل کرکے فرار ہوگیا۔ پھر ٹیپو نے طیارہ اغوا کرنے کے منصوبے پر دوبارہ سوچ بچار کیا۔ اسے اس کام کیلئے مزید دو کارکن بھی مل گئے۔ یہ تینوں پشاور جانے والی پرواز ’پی کے 326‘ پر سوار ہوئے۔ پشاور میں طیارہ لینڈ ہونے سے کچھ دیر قبل ہی انہوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور اسے کابل کی طرف لے گئے۔ کابل ائرپورٹ کے رن وے پر مرتضٰی نے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر تینوں اغواکاروں کو مبارک باد دی اور انہیں ہیرو قرار دیا۔ اس کے بعد مرتضیٰ نے ٹیپو کو مطالبات کی ایک فہرست دی۔ ان مطالبات میں پاکستان میں قید کچھ سیاسی قیدیوں کے نام بھی شامل تھے جن کی رہائی مقصود تھی۔ ٹیپو نے مرتضیٰ کو مسافروں کی شناختی دستاویزات دکھائیں۔ مرتضیٰ نے ان میں سے میجر طارق رحیم کو پہچان لیا۔ وہ سابق فوجی افسر تھے جو بعد میں سفارت کار بن گئے تھے۔ وہ ماضی میں بھٹو کے سیکرٹری بھی رہے تھے۔ اپنے عہدے کی وجہ سے وہ وزیرِ اعظم کے بہت قریب رہے اور مرتضٰی کو بھی جانتے تھے لیکن یہ بات بھی ان کے حق میں نہیں گئی۔ وہ ایک سرکاری اہلکار تھے اور ٹیپو انہیں پیپلز پارٹی کے قائد کو مجرم ثابت کرنے میں مددگار تصور کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا الزام تھا جس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ جنرل ضیا اغواکاروں کے مطالبات تسلیم نہیں کر رہے تھے۔ اس دوران چھ مارچ 1981ء کو اغواکار طارق رحیم کو طیارے کے اگلے حصہ میں لے گئے جہاں پہلے انہیں مارا پیٹا گیا اور پھر انہیں گولی مار کر ان کی لاش رن وے پر پھینک دی گئی۔ 1981ء میں طیارہ اغوا ہونے کے بعد سے ہی اس کاروائی میں مرتضٰی بھٹو کے کردار پر بات ہوتی رہی ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کا بعد میں کہنا تھا کہ ان کی جانب سے طیارے کے اغوا کا حکم نہیں دیا گیا تھا لیکن ایک بار جب طیارہ اغوا ہوگیا تو انہوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی کیونکہ اغواکار ان کی تنظیم کے رکن تھے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ مرتضٰی بھٹو نے ٹیپو کو طیارہ اغوا کرنے سے منع کردیا تھا تاہم یہاں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ وہ پہلے اس منصوبے کی منظوری دے چکے تھے۔ اس وجہ سے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طارق رحیم کے قتل میں مرتضٰی بھٹو کا کیا کردار تھا؟ بعد میں ٹیپو نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے راجہ انور کو بتایا کہ اس نے مرتضیٰ بھٹو کے حکم پر عمل کیا تھا تاہم کابل میں موجود الذوالفقار کے ایک رکن اختر بیگ کا کہنا تھا کہ مرتضی بھٹو کو طارق رحیم کے قتل کے بارے میں ریڈیو سے معلوم ہوا اور یہ سن کر وہ حیران تھے تاہم جس دوران طیارہ کابل میں تھا اس دوران مرتضٰی نے تشدد کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اغواکاروں کو ایک کلاشنکوف فراہم کی۔ اس کلاشنکوف سے طیارے میں طاقت کا توازن بدل گیا اور مغویوں کیلئے کسی قسم کی مزاحمت مزید مشکل ہوگئی۔ اغوأ کی یہ کاروائی اس وقت ختم ہوئی جب طیارہ دمشق پہنچا اور ٹیپو نے طیارے میں موجود چھ امریکی مسافروں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد جنرل ضیا نے بھی کچھ نرمی دکھاتے ہوئے 54 سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا۔ اس اغوا کے بعد مغرور طبیعت کا حامل ٹیپو کابل میں ہی رہ گیا جہاں اس کے پرتشدد رویئے پر بلاخر افغان حکام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور اسے 1984ء میں فائرنگ سکواڈ کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ باقی دونوں اغواکار لیبیا چلے گئے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اون بینٹ جونز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام