کورونا: اعدادوشمار اور علاج۔۔۔۔۔۔

کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے ہر ملک اپنی اپنی حکمت عملی کو اُن عالمی ہدایات کے مطابق ڈھال رہا ہے جو اب تک مؤثر ثابت ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے بھارت میں کورونا وبا اور اس سے ہونے والی اموات کے ’سرکاری‘ اعداد و شمار کے حوالے سے چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شماریات کے کئی ماڈل اس امر کو واضح کر رہے ہیں کہ بھارتی حکومت بیماری اور اموات کی شرح کو بہت کم ظاہر کر رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اب تک کورونا کے دو کروڑ انہتر لاکھ مریض سامنے آچکے ہیں اور تین لاکھ سات ہزار دوسواکتیس افراد اس وبا سے ہلاک ہوچکے ہیں تاہم اپنے ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز کے ماہرین نے بتایا کہ اگر انتہائی محتاط اندازے کے مطابق بھی بات کی جائے تو بھارت میں کورونا کیسز کی تعداد چالیس کروڑ بیالیس لاکھ سے زیادہ جبکہ ہلاک افراد کی کم سے کم تعداد بھی چھ لاکھ تک ہوسکتی ہے تاہم (اس بنیاد پر کہ رپورٹ ہونے والے ہر کیس کی نسبت بیس مریض ایسے ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے اور یہ کہ شرح اموات صفر اعشاریہ تین فیصد ہے) زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ بھارت میں کورونا کے کل مریضوں کی تعداد 53کروڑ 90لاکھ جبکہ اموات کی تعداد سولہ لاکھ رہی ہوگی۔ اور (اس بنیاد پر کہ رپورٹ ہونے والے ہر کیس کی نسبت چھبیس مریض ایسے ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے اور یہ کہ شرح اموات صفراعشاریہ چھ فیصد ہے) جو بدترین صورتحال ہمارے سامنے آتی ہے اس کے مطابق کورونا کیسز کی کل تعداد 70کروڑ 7لاکھ اور اموات کی تعداد 42لاکھ بنتی ہے۔ بھارت کے سیاسی طبقے پر اس وقت وزیرِاعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کے حامی غالب ہیں۔ یہ لوگ نیویارک ٹائمز کی جانب سے سرکاری اعداد و شمار کی چھان پھٹک کرنے پر سخت نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت میں ہندو نظریات نے اختلافی آوازوں کو بھی چپ کروادیا ہے اور لگتا ایسا ہے کہ صرف غیر ملکی میڈیا ہی اس قسم کے سوالات اٹھا سکتا ہے۔ جلائی جانے والی اور دفن کی گئی لاشوں کی تعداد اور سرکاری اعداد و شمار میں تضاد کی وجہ سے یہ حقیقت سب پر واضح تھی کہ سرکاری اعداد و شمار درست نہیں ہیں لیکن ایک ایسا ملک جہاں ٹوئٹر پر اپنے گھر والوں کیلئے خون کے عطیات مانگنے اور مودی حکومت کے حوالے سے تنقیدی پوسٹر آویزاں کرنے پر لوگوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہو اس ملک میں کون حکومت سے سوال کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسی مشکل کو ظاہر کرتی ہے جو جنوبی ایشیا میں معمول بن چکی ہے۔ ایک ایسی ثقافت میں جہاں حقائق اور تجربے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہو وہاں وہی چیز حقیقت ہوتی ہے جو طاقتور کی زبان سے ادا ہو  بھارت میں یہ کردار بی جے پی ادا کرتی ہے۔  بھارت جیسے ممالک میں کسی بحران کو حل کرنے سے زیادہ ضروری کام اس بحران کے حوالے سے موجود بیانیے کو کنٹرول کرنا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جن ممالک کو یہ کنٹرول کرتے ہیں وہاں کم ہی افراد ایسے ہوتے ہیں جو سنجیدہ معاملات پر فراہم کردہ اعداد و شمار پر یقین کریں۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو گزشتہ کچھ مہینوں میں جب پاکستانی کورونا کیسز کی تعداد بیان کرتے تو اس کے ساتھ فلاں ’کے مطابق‘ جیسے انتباہات شامل کرتے۔ صحت کے مسائل پر باریکی سے نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق کئی سرکاری دستاویزات میں موجود اعداد و شمار بھی اکثر ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور دوہزاربارہ سے دوہزارتیرہ کے دوران (سندھ میں) ’تربیت یافتہ عملے کی موجودگی میں ہونے والی زچگی‘ کے زمرے کو دیکھئے۔ پی ایس ایل ایم کے مطابق اس کی شرح 53فیصد جبکہ پی ڈی ایچ ایس کے مطابق یہ شرح اکسٹھ فیصد ہے۔ تربیت یافتہ عملے کی موجودگی میں ہونے والی زچگی ماں اور بچے دونوں کیلئے بہتر ہوتی ہے تاہم اس شعبے میں خدمات کی فراہمی اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک اس حوالے سے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہوں گے۔ اسی طرح سال 2006-07ء کے دوران جن بچوں کی مکمل ویکسینیشن ہوچکی ہے (صوبہ سندھ میں رہنے والے بارہ سے تیئس ماہ کی عمر کے بچے) ان کی تعداد میں بھی فرق ہے۔ پی ایس ایل ایم کے مطابق ان کی شرح پینسٹھ فیصد ہے جبکہ پی ڈی ایچ ایس کے مطابق یہ شرح صرف سینتیس فیصد ہے۔ یہ تضاد بہت بڑا ہے اور یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ کن اعداد و شمار پر بھروسہ کیا جائے اور انہیں مستقبل میں استعمال کیا جائے۔ اعداد و شمار کی درستی کے فقدان کی وجہ بھی ہماری دیگر خامیوں کی طرح نوآبادیاتی دور کو ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر آبادی کو کنٹرول کرنے کی بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی۔ اپنے آنے کے فوراً بعد ہی انہوں نے بڑے پیمانے پر اعداد و شمار جمع کرنے کا کام شروع کیا جو بعد میں ریاست کی انتظام کاری کی بنیاد بنا۔ کس ذات سے تعلق رکھنے والے کتنے افراد ہیں‘ کتنے ہندو ہیں‘ کتنے مسلمان اور کس راجہ کے پاس کتنی زمین ہے‘ انگریزوں کو یہ سب معلوم تھا اور پھر انہوں نے اگلے دو سو سال تک اِسی ڈیٹا کی بنیاد پر حکومت کی۔ برِصغیر کا ڈیٹا سائنس (جس کے نیتجے میں انگریزوں کو ’حقیقت‘ تشکیل دینے میں مدد ملی) کے ساتھ تعارف زیادہ دوستانہ نہیں تھا۔ اس بات کو اب زمانے گزر چکے ہیں۔ اب ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں ڈیٹا کی حکمرانی ہے‘ جہاں ڈیٹا (اعدادوشمار) ہی طاقت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ طاقت ہی دولت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غلط معلومات دینے کے بجائے اس خطے کے ممالک کو چاہئے کہ وہ اعداد و شمار اور درست ڈیٹا کی ضرورت کو سمجھیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)