سیاسی مخالفت۔۔۔۔۔۔

معیشت کی بہتری دکھائی دے رہی ہے لیکن اِس کی سیاسی مخالفت اور مخالفت برائے مخالفت کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں حکومت کی کارکردگی سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ کیا حکمراں جماعت عوام سے جھوٹ بول رہی ہے جیسا کہ قومی معیشت کے اعداد و شمار کے حوالے سے حکومت اور مسلم لیگ (نواز) کے مابین ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست گرم ہے۔ نواز لیگ کے صدر شہبازشریف‘ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ سیکرٹری جنرل احسن اقبال اور دیگر پارٹی قائدین نے ”پری بجٹ سیمینار“ میں شرح نمو بڑھنے سے متعلق حکومتی اعداد و شمار کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ حکومت نے مہنگائی میں تین گنا اور کھانے پینے کی اشیا میں پانچ گنا اضافہ کیا ہے۔ قومی معیشت کا حجم 313ارب ڈالر تھا جسے حکمرانوں نے نیچے لا کر 296ارب ڈالر کر دیا ہے۔ اِن کے بقول شرح نمو منفی ہے۔ اِس لئے آئندہ مالی سال (2021-22ء) کے بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں بالخصوص بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ بھی نہ کیا جائے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور دیگر وفاقی وزرأ (حماداظہر اور مخدوم خسرو بختیار) نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز لیگ کے پری بجٹ سیمینار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والی جماعت گمراہ کن اعدادوشمار پیش کر رہی ہے۔ نوازلیگ کے دور میں ملکی معیشت کو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔وفاقی حکومت نئے مالی سال میں آمدنی کا ہدف سات کھرب روپے رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ٹیکسوں میں اضافے کی ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد (ٹیکس نیٹ) کو وسیع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کے مطابق پاکستان کی شرح نمو (ترقی) آئندہ سال پانچ اور اس سے اگلے برس چھ فیصد ہو جائے گی۔ تحریک انصاف کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نواز لیگ نے مصنوعی طریقے سے روپیہ کو کنٹرول میں رکھا اور قرضے لے کر (مصنوعی طریقوں سے) معیشت کی بہتر دکھائی۔اس وقت جبکہ وفاقی اور صوبائی میزانیوں (بجٹ) کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں حکومت کے لئے اِن میزانیوں کو عوام دوست بنانا یقینا آسان نہیں ہوگا۔ یہ تحریک انصاف حکومت کا تیسرا بجٹ ہوگا اور اس کے پہلے دونوں میزانیوں (بجٹ) کو پیش نظر رکھا جائے تو عوام فطری طور پر اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر پہلے دو میزانیوں کی طرح موجودہ آنے والے بجٹ میں بھی مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر اور نئے ٹیکس لگا کر مہنگائی کے دروازے کھولے گئے تو عوام کے لئے سکھ کا سانس لیتے ہوئے زندہ رہنا عملاً دشوار ہو جائے گا۔ شوکت ترین کو وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالے بمشکل تین ماہ کا عرصہ گزرا ہے جس سے قبل وہ بھی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے مطمئن نہیں تھے۔ بالخصوص آئی ایم ایف سے مشروط قرضوں کی حکومتی پالیسی کے وہ ناقد تھے اور انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان بھی اپنی شرائط پر قبول کیا چنانچہ اقتصادی امور میں ان کے وسیع تجربے کی بنیاد پر حکومت ہی نہیں‘ عوام کو بھی ان سے قومی معیشت کی بحالی کے لئے بے پناہ توقعات وابستہ ہوئیں۔ انہوں نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پہلا اعلان قرض کے ساتھ منسلک آئی ایم ایف کی شرائط پر نظرثانی کا کیا اور سرکاری ملازمین پر ٹیکس بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرط مسترد کردی۔ چند روز قبل انہوں نے قومی معیشت کی بحالی اور گروتھ ریٹ (شرح نمو) بڑھ کر چار فیصد تک جا پہنچنے کا دھماکہ کیا۔ جب اپوزیشن کی جانب سے اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تو سٹیٹ بنک نے بھی شرح نمو چار فیصد ہونے کی تصدیق کر دی چنانچہ حکومت کو اپوزیشن پر پوائنٹ سکورنگ اور اپنی کامرانی کے ڈنکے بجانے کا موقع مل گیا۔ خود وزیراعظم عمران خان حکومتی کامرانی کے اس جشن میں پیش پیش رہے جبکہ نواز لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے اقتصادی ترقی کے حکومتی دعوؤں کو دیوانے کی بڑ قرار دینا شروع کر دیا۔ حکومت کی جانب سے تو قومی معیشت میں اپنی کامرانیوں کے دعوؤں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس سے فطری طور پر عوام کی غربت اورمہنگائی میں ریلیف کے حوالے سے آنے والے میزانیوں کے ساتھ توقعات وابستہ ہو گئی ہیں جبکہ حکومتی دعوؤں نے ان توقعات کو مہمیز لگائی ہے۔ اگر حکومت اپنے دعوؤں اور اعلانات کے مطابق اپنے تیسرے بجٹ کو عوام دوست بجٹ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا اور حزب اختلاف کی ممکنہ حکومت مخالف تحریک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی تاہم اگر بجٹ سابقہ میزانیوں کی طرح اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہی نظر آیا اور آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ میں مروجہ ٹیکس بڑھے اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار نظر آئی اور اس کے برعکس تنخواہ دار‘ تاجر اور مزدور طبقات کو اپنے لئے ریلیف کی بجائے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے عوامی اضطراب کی نئی لہر اٹھ سکتی ہے جس سے حزب اختلاف کی اپنی صفوں میں انتشار کے باوجود عوام کو حکومت مخالف تحریک کیلئے سڑکوں پر لانے کا موقع مل جائے گا۔ عوام مہنگائی سے شدید متاثر ہیں اور کئی شہروں میں بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جس سے کاروباری حلقے پریشان ہیں اور عوامی اضطراب اپنی جگہ بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح سٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ بھی اقتصادی ترقی کے معاملہ میں کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں جس میں مہنگائی نو فیصد اور بجٹ خسارہ سات اعشاریہ پانچ فیصد تک رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جس کی بنیاد پر عوام دوست بجٹ کی توقع نہیں جبکہ مہنگائی کے حوالے سے وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ بھی تشویشناک ہے جس کے بقول ملک میں ایک سال کے دوران مہنگائی کے طوفان اٹھے ہیں اور مہنگائی کی شرح 10.87 فیصد پر جا پہنچی ہے۔ اس تناظر میں حکومت کو قومی معیشت کی ترقی کے دعوؤں کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے بجٹ میں ریلیف کی صورت میں عوام کو مطمئن کرنا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر جبار رحیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)