تین سال قبل سال 2018ء کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا تھا‘ جس کا عنوان ’نئے پاکستان کی جانب سفر (The road to naya Pakistan)‘ رکھا گیا۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں قریب 2 درجن ایسے وعدے کئے گئے جو محصولات (ٹیکسوں) سے متعلق تھے اور اگر زیادہ باریک بینی سے تحریک انصاف کے انتخابی منشور کا جائزہ لیا جائے تو منشور میں ٹیکس (tax) کا لفظ 43 مرتبہ جبکہ اصلاح (reform) کا لفظ 46 مرتبہ ذکر کیا گیا۔ وعدے کا اصطلاحی مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”کوئی شخص اِس بات کی ضمانت دے کہ وہ کوئی خاص کام کرے گا۔“ وعدے کا اصطلاحی مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی خاص کام کو لازماً سرانجام دے گا۔پہلا وعدہ: ”خصوصی ٹاسک فورس (دستہ) بنایا جائے گا جو ملک کی لوٹی ہوئی دولت جو کہ بیرون ملک (آف شور کمپنیوں میں) چھپا کر رکھی گئی ہے واپس لائی جائے گی۔“ اِس وعدے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ تحریک انصاف حکومت کی نصف آئینی مدت گزر چکی ہے تو کیا اِس عرصے میں بیرون ملک چھپائی گئی دولت واپس لائی جا سکی ہے؟دوسرا وعدہ: ٹیکس وصولی کے ادارے (FBR) کی اصلاح کی جائے گی اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد (ٹیکس نیٹ) میں اضافہ کیا جائے گا۔“ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی نصف آئینی مدت مکمل ہو چکی ہے لیکن سال 2018ء سے موازنہ کرنے پر ’ایف بی آر‘ کی کارکردگی میں زیادہ نمایاں فرق یا بہتری نظر نہیں آ رہی۔تیسرا وعدہ: ”ایف بی آر کو خودمختار ادارہ بنایا جائے گا جس میں وزارت خزانہ (فنانس منسٹری) کی مداخلت کم کی جائے گی۔“ کیا اِس قسم کی کوئی ایک بھی مثال یا صورت پیش کی جا سکتی ہے کہ جس میں ’ایف بی آر‘ کو پہلے سے زیادہ خودمختار ادارہ بنا دیا گیا ہو؟
چوتھا وعدہ: ”ٹیکس وصولی کے طریقے اور کلچر کو تبدیل کیا جائے گا جس میں براہ راست (ڈائریکٹ) اور بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکسوں کا تناسب درست کیا جائے گا۔“ حقیقت حال یہ ہے ایف بی آر کے اپنے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق بلواسطہ ٹیکسوں کے مقابلے بلاواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکسوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے جو 66 فیصد ہو چکے ہیں۔
پانچواں وعدہ: ”ایسی ٹیکس اصلاحات کی جائیں گی جن کے ذریعے کاروباری طبقات پر ٹیکسوں میں کمی لائی جائے گی۔“ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ 2021ء میں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ 2 فیصد ورکرز ویلفیئر ٹیکس اور 5فیصد ورکرز فنڈ ہے جسے ملا کر 36فیصد ٹیکسیز نافذ ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ براعظم ایشیا کے دیگر ممالک میں صنعتوں پر اوسطاً ٹیکس شرح 20 فیصد ہے۔
چھٹا وعدہ: ٹیکس اور قومی ترقی کی شرح نمو (GDP) کو آپس میں مربوط کرتے ہوئے اضافہ کیا جائے گا۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح جو کہ سال 2018ء میں 13فیصد تھی وہ کم ہو کر 10.9فیصد ہو چکی ہے۔
ساتواں وعدہ: چھوٹی صنعتوں کی ترقی کیلئے 10سالہ مراعاتی پروگرام شروع کیا جائے گا۔ جس میں اُنہیں ٹیکس سے چھوٹ دی جائے گا اور نئی مراعات بھی دی جائیں گی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ چھوٹی صنعتیں زراعت کے علاوہ سب سے زیادہ ملازمتیں دینے کا ذریعہ ہے۔ تحریک انصاف کی آئینی مدت کا نصف عرصہ گزر چکا ہے کیا اِس دوران چھوٹی صنعتوں اور کاروبار کو مراعات دی گئی ہیں؟توجہ طلب ہے کہ جب ملک کے پیداواری شعبے کو مراعات نہیں دی جائیں گی اور نجی شعبہ پیداوار کرتے ہوئے خطے اور دیگر ممالک کے مقابلے سستی اشیا نہیں بنائے گا اُس وقت پاکستان کی برآمدات عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکیں گی اور مقابلے کی فضا بھی پیدا نہیں ہوگی۔ حکومت کیلئے بلواسطہ اور بلاواسطہ (ڈائریکٹ اِن ڈائریکٹ) ٹیکسوں کو کم کرنا اور کئی صورتوں میں ایسے ٹیکسوں کو ختم کرنا ضروری ہے جو ہر خاص و عام سے ایک مقررہ شرح سے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ زیادہ آمدنی اور بہتر رہن سہن رکھنے والوں کو کم آمدنی رکھنے والوں کی نسبت زیادہ ٹیکس ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور بالخصوص کورونا وبا کے اثرات کم کرنے کیلئے ٹیکس وصولی میں انصاف ضروری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)