متعدد سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے مسلسل بارہ برس اور مجموعی طور پر پندرہ برس اسرائیل کے وزیرِاعظم رہنے والے بنجمن نیتن یاہو کو اقتدار سے تقریباً بے دخل کردیا ہے جنہیں اسرائیلی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ اس سیاسی ڈرامے کو نئے اتحاد نے ’تبدیلی کی حکومت‘ کا نام دیا ہے جبکہ بنجمن نیتن یاہو نے اسے ’صدی کا سب سے بڑا فراڈ‘ کہا ہے۔ اسرائیل کی سیاست میں اِس ڈرامائی تبدیلی کا سہرا بنجمن نیتن یاہو کے سابق چیف آف سٹاف کے سر ہے‘ جسے انہوں نے نکال دیا تھا۔ دائیں بازو کے نفتالی بینیٹ کی جماعت یمینا‘ جس کا مطلب ہی دایاں بازو ہے کو 2019ء کے انتخابات میں ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی مگر دو سال بعد اب یہی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ نفتالی بینیٹ نے اعتدال پسند کہلوانے والے یائر لبید کی سربراہی میں قائم اتحاد کے ساتھ بنجمن نیتن یاہو کو اقتدار سے نکالنے کیلئے معاہدہ کیا اور حیران کن طور پر پہلی بار اسرائیلی حکمران اتحاد میں عرب جماعت کے سربراہ منصور عباس کو بھی شامل کیا گیا کیونکہ ان کے ووٹوں کے بغیر سادہ اکثریت ممکن نہیں تھی۔ اگر اس معاہدے کے تحت حکومت قائم ہوتی ہے تو نفتالی بینیٹ آئندہ دو سال کے لئے وزیرِاعظم بن جائیں گے اور معاہدے کے مطابق اگلے دو سال یائر لبید وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں گے۔ یہ اتحاد صرف اس لئے ڈرامائی نہیں کہ اس میں ایک اعتدال پسند‘ ایک شدت پسند اور ایک مسلم لیڈر شامل ہیں بلکہ یائر لبید کی سربراہی میں قائم اتحاد میں بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ نفتالی بینیٹ دراصل نیتن یاہو سے بھی زیادہ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں‘ وہ نہ صرف فلسطینی عوام کے لئے بُرے القابات کیلئے بدنام ہیں بلکہ وہ مغربی کنارے کا تمام علاقہ اسرائیل میں ضم کرنے کے حامی بھی ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے مارچ میں ہونے والے انتخابات میں تیس نشستیں حاصل کیں جبکہ نفتالی بینیٹ کی جماعت کو صرف سات پر کامیابی ملی لیکن نفتالی کنگ میکر بن کر ابھرے۔ نیتن یاہو اور ان کے بڑے حریف یائر لبید کو حکومت بنانے کیلئے نفتالی بینیٹ کی حمایت درکار تھی۔ یوں نفتالی بینیٹ جو اسرائیل کی سیاست میں ایک سپورٹنگ ایکٹر تھے بڑے کھلاڑی بن گئے۔ اگر نیتن یاہو نئے اتحاد کی حکومت کی تشکیل روکنے میں ناکام رہے تب بھی وہ اپوزیشن لیڈر رہیں گے اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح منظرنامے سے غائب نہیں ہوں گے۔ نیتن یاہو بطور اپوزیشن لیڈر ایک ہی مشن پر ہوں گے اور وہ مشن ہے اس نئی حکومت اور اتحاد کی سانسیں کم سے کم کرنا۔ نیتن یاہو کے پیروکار سابق امریکی صدر ٹرمپ کے پیروکاروں سے زیادہ شدت پسند ہیں اور انہوں نے ابھی سے نفرت اور خوف پھیلانے کا کام شروع کردیا ہے۔ اسرائیل میں یہودیوں کے سوا کسی کو بھی شہری حقوق حاصل نہیں۔ منصور عباس اس اتحاد میں دائیں بازو کی تین جماعتوں کے ساتھ بیٹھے ہیں جو عربوں کو شہری حقوق دینے کی مخالف ہیں۔ ان جماعتوں میں اویگدور لائبرمین کی جماعت بھی شامل ہے جو عرب اسرائیلیوں کو حکومت میں شامل کرنے کے مخالف رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام پر پیدا ہوگا۔ بھان متی کے اس کنبے میں اس بات پر جوڑ پڑے گا کہ نظامِ تعلیم مذہبی ہو یا سیکولر۔ نیتن یاہو ان کمزوریوں کو جانتے ہیں اور انہیں خوب اچھال کر سیاسی عدم استحکام پیدا کریں گے۔ خطے کے حالات پر نئی حکومت کا اثر زیادہ ہوگا۔ نیتن یاہو حکومت کی بے دخلی امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے لئے بھی ایک بھیانک خواب ہے۔ بائیڈن انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ سے جان چھڑا کر پوری توجہ چین اور روس پر مرکوز کرنا چاہتی ہے لیکن اب شاید ایسا ممکن نہ ہو اور حالیہ دنوں میں غزہ پر بمباری جیسے واقعات کا تسلسل بن جائے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے ’موساد‘ پر نیتن یاہو کی گرفت مضبوط ہے اور حال ہی میں انہوں نے موساد کا نیا چیف مقرر کیا ہے لیکن فوج اور اندرونی سکیورٹی کے ادارے شاباک پر ان کا اثر کم ہے۔ 2019ء میں ستمبر کے انتخابات سے پہلے نیتن یاہو غزہ پر جنگ مسلط کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت بھی فوجی سربراہوں نے ان کی چلنے نہ دی۔ اس سال کی جنگ کے دوران وزیرِ دفاع بینی گانتز تھے اور نئی حکومت میں وہی اس عہدے پر برقرار رہیں گے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین پر نئی حکومت کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نئی حکومت نفتالی بینیٹ بنانے جا رہے ہیں۔ نفتالی بینیٹ اپنے پیشرو بنجمن نیتن یاہو سے زیادہ شدت پسند ہیں اور فلسطینی علاقوں پر یہودی آبادکاری کے کھلم کھلا حامی ہیں اور اسرائیل کے زیرِ تسلط فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے عزائم رکھتے ہیں اور دو ریاستی حل کے مخالف ہیں۔ ان کی کابینہ بھی شدت پسندوں سے بھری ہوگی‘ اس کابینہ سے فلسطینی عوام کیلئے بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس حکومت میں فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی‘ نئی یہودی بستیوں کا قیام اور ان کی توسیع بڑھ جائے گی۔ نیتن یاہو کی حکومت کے دوران شیخ جراح کے علاقے سے فلسطینیوں کی بے دخلی غزہ پر گیارہ روزہ بمباری کا سبب بنی‘ بے دخلی کی رفتار بڑھی تو جنگ کے امکانات بلکہ بار بار غزہ پر آگ کی بارش معمول بن سکتی ہے۔ نفتالی بینیٹ اور ان کی کابینہ کے تمام متوقع وزیر بین الاقوامی قانون کی پرواہ نہیں کرتے‘ یہ سب یہود بالادستی کے قائل ہیں۔ نفتالی بینیٹ اپنے پیشرو کی طرف سے اسرائیل دشمن ہونے کے الزامات کو جھٹلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور اس کیلئے وہ مسجد الاقصیٰ پر چھاپے بڑھا دیں گے‘ غزہ پر مزید بمباری ہوگی اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوششیں تیز کریں گے۔ نفتالی حکومت نیتن یاہو سے زیادہ سخت گیر ہونے کا ثبوت دینے کیلئے ایران اور شام کے خلاف کاروائیاں بھی تیز کرسکتی ہے۔ جبر پر قائم ریاست میں اقتدار کا بے رحم کھیل قومی سیکیورٹی کے نام پر جبر اور تشدد کے نئے باب رقم کرسکتا ہے۔ ظلم بڑھنے کی صورت میں پورے خطے کے کسی جنگ کی لپیٹ میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: آصف شاہد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)