بجٹ اور بدگمانیاں ۔۔۔۔۔

نئے مالی سال کے بجٹ سے متعلق وفاقی اور سندھی قیادت کے مابین بیانات کا سلسلہ جاری ہے جس میں سندھ کی جانب سے گلہ کیا جارہا ہے کہ اسے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ”گزشتہ سات سال سے صوبے کو وفاق کی جانب سے کوئی نئی ترقیاتی سکیم نہیں دی گئی اور جب بھی وفاق سے بات کی جاتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بہرے لوگوں سے بات کررہا ہوں۔ پنجاب کی سڑکوں کے منصوبوں کیلئے وفاق نے پیسے دیئے لیکن سندھ کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے سندھ کو تعصب کا سامنا ہے۔“ وزیراعلیٰ سندھ کے اِن اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسدعمر نے کہا کہ ”تحریک انصاف کی حکومت نے سندھ میں جتنے فنڈز خرچ کئے اتنے تاریخ میں کسی بھی اور حکومت نے نہیں کیے‘ البتہ یہ رقم صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کی بجائے براہ راست صوبہ کے عوام پر خرچ کی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سندھ کے لئے 2 تاریخی پیکیجز کا اعلان کیا۔ ان پیکجز میں وفاقی حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی  کے ذریعے جومنصوبے بنا رہی ہے اور وفاقی ادارے اپنے بجٹ سے جو کام کر رہے ہیں وہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے اور یہ تین سال کے اندر پورے کئے جائیں گے۔“ انہوں نے کہا کہ سندھ میں کے فور کا منصوبہ ہے جو سالہا سال سے رکا ہوا ہے‘ اس کی ہم نے ذمہ داری لی ہے۔ کراچی میں محمود آباد، گجر نالے پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور اگلے سال اس کو مکمل کرنے کیلئے مزید اربوں روپے دیئے جائیں گے۔ سندھ اور وفاق کے درمیان الزامات اور ان کے جوابات کے اس سلسلے کے دوران میں ہی وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس بھی ہورہا ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت دیگر کونسل ارکان اور متعلقہ اعلیٰ حکام شرکت کررہے ہیں۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آٹھ سو گیارہ ارب روپے کا اضافہ کرنے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔ اس رقم میں سے دو سو پچاس ارب روپے کا اضافہ وفاق جبکہ پانچ سو اکسٹھ ارب روپے کا اضافہ صوبوں کو ملنے کا امکان ہے۔ وفاق اور صوبوں کے دو ہزار ایک سو پینتیس ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ اور آئندہ مالی سال کیلئے چار اعشاریہ آٹھ سے پانچ فیصد تک شرح نمو کی منظوری بھی این ای سی سے لی جائے گی۔ اسد عمر اقتصادی معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور وہ عمران خان کی ٹیم کے اہم ارکان میں سے ایک ہیں‘ انہیں چاہئے کہ مراد علی شاہ یا سندھ حکومت کے گلے شکوے ختم کرنے کیلئے حقائق ان کے سامنے رکھ کر بات کریں تاکہ معاملات کو افہام و تفہیم سے نمٹایا جاسکے۔ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) وفاق اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کیلئے فیصلہ سازی کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا آئینی فورم ہے۔ اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے صوبوں کے درمیان دوری کو جس حد تک ممکن ہوسکے ختم کرنے کی  کوشش کی جانی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی وفاق سے متعلق گلے شکوے کرتے ہوئے صوبائی جذبات کو ابھارنے کی بجائے ملک کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر مناسب انداز میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ کسی کو جمہوری نظام پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان ایسی بدگمانی یا جھگڑا کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ معاملہ صرف فنڈز کی تقسیم تک محدود ہے۔ پانی کی تقسیم کے سلسلے میں بھی نہ صرف  چھوٹے موٹے اختلافات موجود ہیں۔ جہاں تک وفاق کی بات ہے تو اس پر مختلف حوالوں سے تعصب کے الزامات لگتے رہتے ہیں جو مناسب شیوا نہیں۔ ایسے الزامات صوبائیت کے جذبات کو ہوا دیتے ہیں جس کے باعث وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین ایک گلدستے جیسی یگانگت کے تصور پر حرف آتا ہے‘ لہٰذا صوبائی حکومتوں کو وفاق کے جن بھی اقدامات سے اختلاف ہو ان کے حوالے سے متعلقہ فورمز پر بیٹھ کر بات کی جانی چاہئے تاکہ کسی بھی وجہ سے وفاق کے حوالے سے منفی جذبات پیدا نہ ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات کو مل بیٹھ کر افہام وتفہیم سے حل کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے لئے بھرپور اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شاکر جواد خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)