کورونا وبا: ویکسین سفارتکاری۔۔۔۔

’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ اور سی پیک‘ جیسی حکمت عملیوں کے علاوہ عوامی جمہوریہ چین نے کورونا وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کو بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے بالخصوص جنوب ایشیائی خطے کے ممالک میں استعمال کیا ہے۔ جولائی دوہزاربیس میں کثیر الملکی مذاکرات کی میزبانی کرتے ہوئے چین نے جنوبی ایشیائی ملکوں کو کورونا وبا سے نبرد آزما ہونے میں مدد دی تھی۔ اس سلسلے کی چوتھی اور اب تک کی آخری میٹنگ اپریل کے آخر میں ہوئی‘ جس میں پاکستان‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ چین‘ نیپال اور سری لنکا کے وزرائے خارجہ نے حصہ لیا تھا۔ یہ تمام ملک بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو منصوبے کا حصہ ہیں جبکہ بھارت اِس کا حصہ نہیں جو متعدد بار کہہ چکا ہے کہ وہ بی آر آئی کا حصہ نہیں بنے گا اور اس کی وجہ بھارت کی سرحدی خومختاری کے بارے میں تحفظات ہیں۔ 
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کے مطابق ”ستائیس اپریل کو ہونے والے مشاورتی اجلاس میں چین نے خطے کے ملکوں کو ویکسین کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی۔“ چین کئی برس سے بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کے تحت شروع کئے گئے منصوبوں کو خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اس کے تحت بیجنگ کو دیگر ملکوں میں جو پہنچ حاصل ہوئی ہے اسے اب ان ملکوں کی طبی امداد سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔ رواں برس مارچ میں چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے سری لنکن ہم منصب گوتابایا راجپکسے سے کہا تھا کہ چین سری لنکا کو کورونا وبا پر قابو پانے میں مدد دیتا رہے گا اور اس کے ساتھ ہی چین کولمبو پورٹ سٹی اور ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے اور بی آر آئی کے تحت قریبی تعاون جاری رکھے گا۔ اسی طرح صدر شی جن پنگ نے مئی کی چھبیس تاریخ کو نیپال کے صدر بدہیا دیوی بھنڈاری سے بات کی اور بی آر آئی کے تحت تعاون کی رفتار کو تیز کرنے اور ہمالیہ کے آر پار کثیر الجہتی مواصلات کے منصوبے ’ٹرانس ہمالین ملٹی ڈائمنشنل کنکٹیوٹی نیٹ ورک‘ کو بتدریج آگے بڑھانے کا یقین دلایا۔ مئی کے مہینے ہی میں رشکئی خصوصی صنعتی زون کا افتتاح ہوا جو پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے منصوبے کے تحت تعمیر کیا جا رہا ہے۔  بھارت کے ویکسین بنانے والے سب سے بڑے ادارے سیرم انسٹی ٹیوٹ نے لائسنس کے تحت کووی شیلڈ کے نام سے ویکسین تیار کرنا شروع کی تو بھارت نے ’ویکسین متری‘ یعنی ویکسین کی دوستی نامی منصوبے کے تحت سری لنکا‘ بھوٹان‘ نیپال اور بنگلہ دیش کو ویکسین فراہم کرنا شروع کی لیکن اس کے بعد بھارت کو کورونا کی دوسری بڑی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بھارت کی ویکسین سفارتکاری رک گئی کیونکہ اُس کے لئے اپنے شہریوں کے لئے ویکسین پوری کرنا مشکل ہو گیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ بھارت میں تیار ہونے والی ویکسین کی ہمسایہ ملکوں کو فراہمی بند کرنا پڑی اور یوں بھارت نے چین کیلئے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے میدان خالی کر دیا۔ چین نے سائنوفارم کورونا ویکسین کی دس لاکھ خوراکیں سری لنکا کو فراہم کیں اور پانچ لاکھ خوراکیں بنگلہ دیش کو دیں۔ چین نے نیپال کو بھی اضافی ویکسین دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ مالدیپ کو بھی چین نے ویکسین اور طبی امداد دی۔ چین نے افغانستان کو بھی چار لاکھ سائنو فارم نامی ٹیکے بھیجے ہیں۔ بیجنگ کی طرف سے ان ممالک کو ویکسین کی یہ امداد ایک ایسے وقت دی گئی جب بھارت کے اپنے ہمسایہ ملکوں خاص طور پر نیپال اور بنگلہ دیش سے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے دور اقتدار میں نیپال کا چین کی طرف جھکاؤ بڑھا ہے۔ بھارت اور نیپال میں گزشتہ سال جون میں اس وقت کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی جب نیپال نے اپنے نئے جغرافیائی نقشے جاری کئے تھے۔ ان نقشوں میں نیپال نے بھارت کے ساتھ متنازعہ حصوں کو اپنی سرحدوں میں دکھایا تھا۔ دوسری طرف بنگلہ دیش نے متعدد مواقعوں پر بھارت کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے بھارت کے دوہزاراُنیس میں منظور کئے گئے متنازع شہریت کے قوانین کے بارے میں دیئے گئے بیانات پر اپنی ناپسندیدگی یا ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ چین کے ریاستی نشریاتی ادارے نئی دلی پر ویکسین کی برآمدات روکنے پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک جانتے ہیں کہ وہ کس ہمسایہ ملک پر انحصار کر سکتے ہیں۔ گلوبل ٹائمز نامی چین کے اخبار نے بارہ مئی کی اشاعت میں تحریر کیا تھا کہ ”بھارت کی طرف سے ضروری امداد نہ ملنے کے باوجود بھارت کو خوش کرنے کیلئے نیپال چین سے صحت مندانہ تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہا۔ چینی ویکسین کو منظور کرنے میں نیپال نے اس لئے تاخیر کی کیونکہ وہ بھارتی ویکسین کو ترجیح دینا چاہتا تھا۔ جب نیپال کو وبا کی دوسری لہر نے بری طرح جکڑ لیا تو توقعات کے باوجود نئی دلی نے کھٹمنڈو پر کوئی رحم نہیں کیا۔“ جنوری میں گلوبل ٹائمز نے بھارت کی حکومت پر اُس وقت مداخلت کرنے کا الزام لگایا جب تجربات کے بعد بنگلہ دیش نے سائنو ویکسین کی وصولی روک دی تھی اور ویکسین بنانے والی کمپنی نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش کی حکومت سے اس کی تیاری پر ہونے والی لاگت میں اپنا حصہ ڈالنے کی بات کی تھی۔ گلوبل ٹائمز کے بقول بھارت کورونا کے خلاف جاری کوششوں میں جنوبی ایشیا کے ملکوں سے چین کے تعاون کو بدنام کر رہا ہے کیونکہ یہ خطہ روایتی طور پر انڈیا کے زیر اثر رہا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں‘دی پرنٹ‘ نامی ویب سائٹ نے یکم جون کو تحریر کیا تھا کہ کورونا وبا نے جنوبی ایشیا میں بھارت کی محدود قائدانہ صلاحیتوں کو ثابت کر دیا ہے‘ جس سے چین کی خطے میں پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے۔ اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کے علاوہ چین کی طرف سے جنوبی ایشیا کے ملکوں کو ویکسین کی سپلائی اور وبا پر قابو پانے میں مدد دینے کا ایک اور محرک یہ ہو سکتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ وبا ان ملکوں سے چین کے اندر دوبارہ پھیلے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر مظہر حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)