اِقتصادی ترقی اور مہنگائی

مہنگائی کا اثر اِس لئے بھی زیادہ محسوس ہو رہا ہے کیونکہ فی کس آمدنی میں خاطرخواہ اِضافہ نہیں ہو رہا۔ قوت خرید بڑھنا ضروری ہے کیونکہ آمدنی اور قوت ِخرید کے درمیان براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ جب ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔پاکستان خرچ کرنے والی معیشت ہے کہ جہاں عوام کی اکثریت بطور صارفین خریداری کرتی ہیں اور قومی بچت کی شرح کم ہے تو اس کا اثر ”جی ڈی پی‘‘میں اضافے کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ اگر جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب لوگ زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور ان کی طلب پوری کرنے کے لئے زیادہ چیزوں کی پیداوار ہو رہی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کی شرح بڑھی ہے لیکن چیزوں کی کھپت بھی بڑھی ہے جس کی وجہ سے تینوں شعبوں (زرعی‘ صنعتی اور خدمات) کی پیداوار اور حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ لوگوں کی قوت ِخرید بھی بڑھی ہے اور قوت خرید بڑھنا خوش آئند پیش رفت ہے۔عوام کی قوت خرید بڑھنے کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ کی سطح پر موجود ہے۔ سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے مئی میں مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ نو فیصد ہونے کا اعلان کیا۔ فنانس ڈویژن نے مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح نو اعشاریہ آٹھ فیصد رہنے کی توقع کا اظہار کیا تھا۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں برس افراط زر کی شرح کا ہدف ساڑھے چھ فیصد رکھا ہے اور ماہرین کے مطابق مالی سال کے اختتام تک اس ہدف کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی سال کے اختتام تک مہنگائی کی شرح سات سے نو فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ماہرین کے مطابق اگرچہ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی میں اضافے کے اعداد و شمار پر سوالیہ نشان ہے لیکن اگر انہیں درست مان لیا جائے تو اس کا فائدہ اتنی جلدی عام افراد کو منتقل نہیں ہو سکتا۔وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں گز شتہ سال کے مقابلے میں تیرہ فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ کمیٹی کے مطابق گزشتہ سال فی کس آمدن 1361ڈالر تھی جو اب 1543ڈالر ہو گئی ہے یعنی اگر پاکستانی روپے میں بات کی جائے تو فی کس آمدن گزشتہ سال 68403 تھی جو اب بڑھ کر 72ہزار ہو گئی ہے۔ سابق حکومت کے آخری مالی سال میں فی کس آمدنی 68705 روپے تھی۔ فی کس آمدنی جی ڈی پی کے سائز کو ملک کی مجموعی آبادی پر تقسیم کر کے نکالی جاتی ہے۔ اس سال حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 3.9فیصد جی ڈی پی میں شرح نمو ہے جس کی وجہ سے اس کا سائز بڑھ گیا ہے جس نے فی کس آمدنی کے اعدادوشمار کو بھی بڑھا دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی سائز میں اضافے کی بنیاد پر فی کس آمدنی بڑھنے کے اعداد و شمار جاری کر کے قوت خرید میں اضافے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اسے ماہرین معیشت درست نہیں سمجھتے۔ معیشت کی اصطلاح میں اگر دیکھا جائے تو جب جی ڈی پی میں ترقی ہوتی ہے تو اسی سال لوگوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اسے منتقل ہونے میں دو تین سال کا عرصہ لگتا ہے۔ معیشت میں ترقی کی وجہ سے کمپنیوں کے مالکان کو تو چھ مہینے یا سال کے اختتام پر منافع کی صورت فائدہ ہوتا ہے لیکن ملازمین کو اس کا فوری فائدہ نہیں ہوتا۔ جس طرح جی ڈی پی راتوں رات نہیں بڑھتی اسی طرح قوت خرید میں اضافہ بھی راتوں رات نہیں ہوتا۔ معاشی بہتری سے متعلق دعویٰ ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ حکومت نے گزشتہ سال خود اپنے ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا اور دوسری جانب مہنگائی کی شرح میں اضافے جیسی حقیقت کو بھی حکومت تسلیم کرتی ہے۔ اسی طرح ایک عام مزدور کی تنخواہ میں بھی کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ موجودہ مالی سال کو دیکھا جائے تو یہ سال بھی کورونا کی نذر ہو گیا ہے۔ وبا کی وجہ سے عام لوگ شدید متاثر ہیں۔ بیروزگاری ہے تو دوسری جانب حقیقی آمدنی زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوئی ہے۔ ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی سست روی کے باعث ملک میں دو کروڑ ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی ورک فورس تھی جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ رہ گئی ہے تاہم معیشت میں بحالی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت دوبارہ کام پر لوٹ چکی ہے اور اس وقت ان کی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ تک ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی قوت خرید محدود ہوئی ہے اور ایک خاص طبقہ کی آمدنی یقینی طور پر بڑھی ہے جو صنعتکار ہے یا جو اشیا ء کو ذخیرہ کر رہا ہے کیونکہ اُن کی پیداوار پر لاگت کم آئی تھی لیکن اب وہ مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے اور ملک میں افراط زر کی شرح بلندی کی جانب گامزن ہے۔اگر معیشت میں بہتری آئی بھی ہے تو اس کا معیشت کے اصولوں کے تحت فائدہ ایک سال کے اندر منتقل نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح جی ڈی پی کی شرح کا تعین دو طرح سے کیا جاتا ہے۔ ایک حقیقی جی ڈی پی ہوتی ہے جس میں ملک کے پیداواری شعبوں کی اعداد و شمار لے کر ملک کی مجموعی ترقی کا نمبر دیا جاتا ہے اس میں مہنگائی کو شامل نہیں کیا جاتا۔ دوسری قسم نومینل جی ڈی پی ہوتی ہے جس میں مہنگائی کو شامل کیا جاتا ہے کہ اگر پہلے کوئی شخص ایک سو روپے میں خرید اری کر رہا تھا تو اب وہ ایک سو دس روپے میں وہی چیز خرید رہا ہے یعنی وہ چیز بنانے والی کمپنی زیادہ پیسے کما رہی ہے اور اسے مزید نفع مل رہا ہے تاہم جو عام صارف خرید رہا ہے اس کی آمدنی پر اس کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ معاشرے میں کیونکہ معاشی عدم مساوات ہے اس لئے کمپنیوں کی پیداوار میں اضافے کی بنیاد پر جی ڈی پی میں بہتری ہوئی ہے اور اس کی بنیاد پر فی کس آمدنی میں بھی اضافہ دکھایا جا رہا ہے لیکن ایک عام مزدور کی آمدنی میں اضافہ ہوا یا نہیں اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر واجد کمال۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)