وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ فی الوقت درپیش مرحلہ (چیلنج) ”سب کے لئے معاشی شرح نمو (گروتھ)“ہے اور حکومت موبائل کالز‘ انٹرنیٹ پیکجز‘ ایس ایم ایس پر ٹیکس نہیں لگا رہی ہے۔اِس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ بجٹ میں موبائل فون کالز‘ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ کے استعمال اور مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) پر ٹیکس لگانے کی کابینہ نے مخالفت کی۔ حکومت ڈالر کمانا چاہتی ہے جس کے لئے برآمدات میں اضافے کے بغیر چارہ نہیں۔ آمدن کوجی ڈی پی کے 20فیصد تک لانا بھی آسان نہیں ہے تاکہ اُدھار لئے بغیر اِسے ترقی پر خرچ کیا جا سکے۔ ٹیکس نیٹ میں تین لاکھ بارہ ہزار افراد کا اضافہ اپنی جگہ غیرمعمولی ہے اُور اِسے دس لاکھ تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔ اس سے 75سے100ارب روپے ریونیو بڑھے گا۔ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھی منی بجٹ نہ لانے کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں مگر ایک نہیں بلکہ تین چار منی بجٹ آ جاتے تھے۔ شوکت ترین کی طرف سے منی بجٹ نہ لانے کے وعدے پر عمل کی امید ہے۔ وہ جس طرح کی پالیسیاں بنا رہے ہیں وہ اسی طرح لاگو ہو گئیں تو منی بجٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ عالمی اداروں سے کڑی شرائط پر قرضوں سے گریز کر رہے ہیں جبکہ کئی شعبوں میں آسان قرضوں کی فراہمی کے لئے کوشاں ہیں۔ وزیر خزانہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اخوت پروگرام نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیئے ہیں جس سے ریکوری ننانوے فیصد تک ہوئی۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ زراعت کے شعبے کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا۔ وزیر خزانہ اس شعبے کو بھی اوپر اٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کاشتکار کوہر فصل پر ریلیف دیں گے‘۔ وزیر خزانہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم ہر خاندان کو اپنی چھت دیں گے‘ اس کے لئے دی جانے والی رقم کی حد بیس لاکھ روپے تک ہے۔ گو بیس لاکھ روپے بڑی رقم نہیں تاہم اس سے اپنا گھر بنانے میں کسی حد تک آسانی ضرور ہو گی۔ ٹیکس جمع کرنا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے شوکت ترین کہتے ہیں ہمارے پاس ریونیو نہیں۔ ریونیو ایف بی آر اور صوبے اکٹھا کرتے ہیں۔ رواں سال کافی چیلنجنگ ٹاسک دیا گیا کہ وہ سینتالیس کھرب تک اکٹھا کریں گے۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے یہی مذاکرات ہوئے ہیں کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ٹیکس نہیں لگائیں گے بلکہ مزید لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔حکومت ٹیکس جمع کرنے کا شفاف نظام وضع کر لے تو مطلوبہ ہدف آسانی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ حکومت ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں توسیع کر رہی ہے۔ ٹیکس نیٹ کو دس لاکھ تک بڑھا دیا گیا تو شرح نمو میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے انعامی سکیم کا کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔ اس میں مزید اضافہ ہو گا جو ملک کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو گا۔ معیشت مضبوط ہوگی تو عوام کو مطلوبہ ریلیف بھی مل سکے گا۔سعودی عرب سے ڈیفرڈ پیمنٹ پر تیل کی فراہمی پر بات ہو چکی ہے۔پنشن کا ایک حصّہ ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹ کر ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے طور پر ادا کیا جاتا ہے کچھ حصہ حکومت کی طرف سے بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کو حکومت استعمال کر کے مستقل منافع کی سبیل نکال سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے پنشنرز حکومت کو بوجھ بھی محسوس نہیں ہوں گے۔ (بشکریہ: بزنس ریکارڈر۔ تحریر: ڈاکٹر اسفند جلیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)