کینیڈا حملہ: نفرت اور اسلاموفوبیا۔۔۔۔۔

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے اچھے مستقبل کی خاطر کینیڈا کی شہریت اختیار کی لیکن چھ جون دوہزاراکیس کے روز اِس بدقسمت خاندان کے 6 افراد کو تیزرفتار ٹرک سوار نے دانستہ طور سے اُس وقت کچل دیا جب وہ حسب معمول اپنے گھر کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف اِس نفرت انگیز اور نسل پرستانہ حملے (واردات) کے بعد کینیڈا میں مسلم و غیرمسلم اقلیتوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور وہ کینیڈا میں ’اسلاموفوبیا‘ کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ کینیڈا کی حکمراں جماعت اور حزب اختلاف نے یک زبان ہو کر مسلمان خاندان پر ہوئے حملے کی مذمت کی اور اِسے ”دہشت گرد“ واقعہ قرار دیا جبکہ پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کر رکھا ہے جسے ابتدائی سماعت کیلئے عدالت میں پیش کیا گیا۔ کینیڈا کے اٹارنی جنرل نے زیرحراست ملزم پر دہشت گردی کا مقدمہ عائد کرنے کی منظوری دی ہے جو اپنی جگہ غیرمعمولی پیشرفت اور اِس حقیقت کا بیان ہے کہ کینیڈا کی حکومت مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کا تحفظ چاہتی ہے اور وہ اِس واقعے میں فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے بھی پرعزم ہے۔ حملہ آور نیتھینیل ویلٹمین کی عمر 20 سال ہے اور وہ کینیڈا کے صوبے انٹاریو کے شہر لندن سے تعلق رکھتا ہے جہاں اُسے ایک ہی خاندان کے چار افراد کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ’قتلِ عمد‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔ ویلٹمین پر قتل کے چار اور اقدامِ قتل کا ایک الزام عائد ہے۔ کینیڈا میں دہشت گردی کے واقعے میں ایک ہی خاندان کی تین نسلیں ہلاک ہوئیں جن میں چھیالیس سالہ فزیو تھراپسٹ سلمان افضل‘ ان کی اہلیہ‘ پی ایچ ڈی کی طالبہ چوالیس سالہ مدیحہ سلمان‘ نویں جماعت کی طالبہ پندرہ سالہ یمنیٰ سلمان اور اُن کی 74سالہ ضعیف دادی بھی شامل ہیں جبکہ اِس خاندان کا 9 سالہ بچہ فائز سلمان زیرِ علاج ہے۔ کینیڈا میں مقیم مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اِس عمومی رائے کا اظہار کیا ہے کہ اگر یہ حملہ کسی ایک مسلمان خاندان کے خلاف ہو سکتا ہے تو پھر یہ کسی بھی مسلمان خاندان کے ساتھ دوبارہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اجتماعی رائے یہ سامنے آئی ہے کہ کینیڈا کو محفوظ سمجھنے والوں کو اپنے تصورات پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ کینیڈا میں 2 لاکھ سے زائد پاکستانی آباد ہیں۔ 1986ء میں کی گئی قومی مردم شمار سے معلوم ہوا تھا کہ کینیڈا میں رہنے والے پاکستانیوں کی اکثریت قومی آمدنی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور اِن کی مالی حیثیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے کینیڈین باشندوں سے کم ہے۔ صرف 2 فیصد پاکستانی نژاد کینیڈین باشندے اپنے گھر رکھتے ہیں اور 82فیصد ایسے ہیں جن کے خاندان کے افراد کی تعداد پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے۔کینیڈا کی اکثریت سمجھتی ہے کہ پاکستانی نژاد خاندان کی ہلاکت کینیڈین معاشرے کا امتحان ہے اور اِس سے زیادہ دکھ کی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ ایک خاندان کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے پیاروں کو دفنانا پڑا۔ پولیس نے اب تک اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ گرفتار ملزم سے تفتیش کے دوران انہیں کون سے ایسے ثبوت یا شواہد ملے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ نفرت کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ملزم نیتھینیل ویلٹمین نے ابھی تک کوئی درخواست دائر نہیں کی۔ مقامی میڈیا کے مطابق چودہ جون کے روز اُنہیں تھوڑی دیر کیلئے ویڈیو کال پر عدالت میں دیکھا گیا۔ اُنہوں نے بڑے سائز کی نارنجی ٹی شرٹ اور پینٹ پہنی ہوئی تھی اور نیلے رنگ کے کپڑے سے اپنے منہ کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ملزم نے جج کو بتایا کہ اُس نے ابھی تک کوئی وکیل نہیں کیا۔ اگلی پیشی اکیس جون کو متوقع ہے۔ دہشت گردی کے اضافی الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کینیڈا کی نائب وزیرِ اعظم کرسٹیا فریلینڈ نے کہا ہے کہ یہ ’ضروری‘ ہے کہ ’حملے کو دہشت گردی کا عمل‘ کہا جائے۔ کینیڈین پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ویلٹمین پر الزامات کے حوالے سے اٹارنی جنرل اور وفاقی پراسیکیوٹرز کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ابھی بھی تحقیقات جاری ہیں لیکن عوام کو مزید کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دہشت گردی سے قتل کے الزام میں استغاثہ کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہلاک کرنے یا شدید نقصان پہنچانے کا پہلے سوچا گیا تھا‘ اس بات کا ثبوت کہ یہ عمل کسی سیاسی‘ مذہبی یا نظریاتی بنیاد پر کیا گیا اور یہ ثابت کرنا کہ یہ عمل عوام یا کسی خاص گروہ کو نقصان پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے۔ گذشتہ سال میں کینیڈا کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے اونٹاریو میں یہ دہشت گردی کا تیسرا واقعہ ہے۔ لندن کی مسلم برادری اس خاندان کی موت پر ماتم کناں ہے لیکن پورا ملک اس واقعہ کے بعد دکھ اور خوف کی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ تیرہ جون کو افضال خاندان کے جنازے میں شرکت کیلئے سینکڑوں افراد لندن آئے جو ٹورانٹو شہر سے دو گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ اِس سانحے کے خلاف وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی بیان جاری کیا اور انہوں نے اِسے ایک دہشت گرد حملہ قرار دیا‘ جس کے بعد کینیڈا کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم کے اِس بیان کی حمایت کی اور اِسے غیر معمولی سیاسی اتحاد قرار دیا۔ (بشکریہ: دی ٹورنٹو سن۔ تحریر: اینڈرین وائلڈ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)