قومی تقاضا: اجتماعیت کی ضرورت

عالمی سطح پر کئی دفاعی اتحاد قائم ہیں جن میں ایک 5 ممالک کا اتحاد بھی شامل ہے جو آپس میں خفیہ معلومات (انٹلی جنس شیئرنگ) کیلئے بنایا گیا ہے اور اِس میں آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ‘ برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ یہ سبھی ممالک اپنے اپنے دفاعی افرادی و تکنیکی وسائل سے مشترکہ طور پر استفادہ کر رہے ہیں اور قابل ذکر ہے کہ اِن خفیہ اداروں کے اشتراک عمل سے قائم ہونے والے بندوبست کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں۔ جس کے تحت پاکستان سے ہونے والی مواصلاتی رابطہ کاری کو سنا جاتا ہے اُس پر نظر رکھی جاتی ہے کہ کون کس سے اور کس قدر رابطے میں ہے۔ پاکستان کی طرح یہی جاسوسی نظریں جنہیں ’فائیو آئیز‘ بھی کہا جاتا ہے افغانستان پر جمی ہوئی ہیں۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ تکنیکی طور پر جاسوسی کرنے والوں نے پاکستان میں سائبر اسپیس (cyberspace) پر بھی نظریں گاڑ رکھی ہیں۔فائیو آئیز جاسوسی کرنے کا ایک انداز یا طریقہ ہے جس میں الیکٹرانک آلات کی مدد سے ہونے والے رابطوں تک الیکٹرانک آلات ہی کی مدد سے رسائی کچھ اِس انداز سے حاصل کی جاتی ہے کہ اِس میں بات چیت (رابطے) کرنے والوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کا ہر رابطہ اور ہر لفظ کہیں نہ کہیں محفوظ (ثبت) ہو رہا ہے اور اِن کے خلاف بطور ثبوت بھی پیش ہو سکتا ہے۔مواصلاتی رابطوں کی ضرورت اور اہمیت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں پہلے سے زیادہ فعال ہیں اور جہاں کہیں دو افراد یا گروہوں میں رابطے بار بار ہوں وہاں خفیہ معلومات اکٹھا کرنے والے آلات مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے نگرانی شروع کر دیتے ہیں اور ایک مرتبہ نگرانی شروع ہونے کے بعد اِس کا سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے کہ کون کہاں ہے اور وہ مزید کتنے لوگوں سے کتنے عرصے سے رابطے میں ہے وغیرہ وغیرہ۔ عالمی سطح پر ہونے والی اِس رابطہ کاری میں صرف فون کالز ہی نہیں بلکہ تحریری پیغامات (ٹیکسٹ میسیجز) پر بھی نظر رکھی جاتی ہے جس کیلئے کئی تکنیکی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ فائیو آئیز جاسوسی میں خلائی سیارے کی مدد بھی لی جاتی ہے‘ جس سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ بالخصوص اِن اہداف کے مقامات کیا ہیں اور اُن کے رہن سہن میں وقت کے ساتھ کیا تبدیلیاں آئیں ہیں۔ جیوسپاٹیل انٹلی جنس (Geospatial Intelligence) کہلانے والے اِس طریق جسے مختصرا ’GEOINT‘ کہا جاتا ہے کہ 7 پہلو ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے دوستوں کا تعین اور شمار کیا جاتا ہے۔ دوسرا دشمنوں کا تعین اور شمار رکھا جاتا ہے۔ تیسرا دشمنوں کی چال یا حکمت عملی کیا ہے۔ چوتھا غیرمتحارب مخالفین کا تعین اور شمار فہرست کیا جاتا ہے۔ پانچواں کسی ہدف کے گردوپیش کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں۔ چھٹا خطرے کی زیادہ سے زیادہ شدت اور اثرانگیزی کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے اور ساتواں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اِس پوری کوشش کا حاصل و نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔فائیو آئیز کے تحت سائبر انٹلی جنس کو بھی دیکھا جاتا ہے اور اِس وسیلے کے ذریعے ہونے والی رابطہ کاری کو دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح ٹیلی کیمونیکیشنز نیٹ ورکس‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آلات اور کمپیوٹر سسٹمز کا استعمال ہو رہا ہے۔ اِس نظام کے تحت ہر کمپیوٹر سے ہونے والی رابطہ کاری پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اِن حالات میں جبکہ پاکستان اور افغانستان پر دنیا بھر کی نظریں اور خفیہ اداروں کے جاسوسی وسائل مرکوز ہیں تو ہر لفظ اور بیان پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اِن کے مختلف نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں جن کے پاکستان کے قومی مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا جس دفاعی طاقت کے بل بوتے پر اکڑ رہی ہے اُسے افغانستان میں شکست ہوتے دیکھا گیا ہے۔ پانچ ممالک پر مشتمل جاسوسی کی تمام تر صلاحیت اور طاقت کو افغانستان میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جہاں تک پاکستان کے دفاع کا تعلق ہے تو اب تک یہ بات تسلیم شدہ مسلمہ ہے کہ ہمارے عسکری اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیت محدود وسائل کے باوجود دنیا کے کئی ترقی یافتہ مقابلوں سے بہتر ہیں۔ اِس صورتحال میں پوری قوم کو چاہئے کہ وہ یک جہتی کا مظاہرہ کریں اور خارجہ پالیسی کے خدوخال مرتب کرتے ہوئے ایسی حکمت عملیاں وضع کی جائیں اور قومی سطح پر ایسا اتفاق رائے پیدا کیا جائے جس سے اجتماعیت کا تاثر اُبھرے اور اجتماعیت کو فروغ ملے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)