بدستور خطرہ؟

فروری دوہزاربائیس پاکستان کی مالیاتی حالت اور مالیاتی کارکردگی کے اعتبار سے ’بُرا مہینہ‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مالی سال دوہزاربائیس کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ بارہ ارب (1200 ملین) ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ 994 ملین ڈالر سرپلس تھا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اگست 2021ء میں بیس ارب ڈالر سے کم ہو کر سولہ ارب ڈالر رہ گئے تھے پھر یہ ہوا کہ فروری کے آخری دن وفاقی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر دس روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کا اعلان کر دیا۔مارچ دوہزاربائیس بھی پاکستان کے مالیاتی حالات کیلئے اچھا مہینہ ثابت نہیں ہوا جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں دوگنا ہو کر ایک ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ مالی سال دوہزاربائیس کے پہلے 9ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تیرہ ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارچ میں سٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کیلئے واقعی ایک ”بُرا مہینہ“ تھا: مارچ کے چار ہفتوں کے لئے سٹیٹ بینک کو ہر ہفتے ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 10.4 ارب ڈالر رہ گئے جو چار ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کیلئے بمشکل کافی تھے۔

اپریل تک بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے حکومت پاکستان کی ضمانت یافتہ بانڈز کی فروخت شروع کر دی تھی۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں ان بانڈز پر پیداوار ستائیس فیصد تک بڑھ گئی تھی۔ عالمی سرمایہ کار تیس جون تک ڈیفالٹ کی توقع کر رہے تھے جو بائیس کروڑ پاکستانیوں کیلئے ممکنہ طور پر تباہ کن دیوالیہ ہے۔ گیارہ اپریل کو میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ چھبیس مئی کو شہباز شریف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے فی لٹر اضافہ کیا جو ’آئی ایم ایف پروگرام‘ میں واپس آنے کی جانب بڑا قدم ہے۔ ستائیس مئی کو تین چیزیں ہوئیں۔ پاکستان کے بین الاقوامی بانڈز کی قدر میں تیزی آئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں دو روپے چالیس پیسے کا اضافہ ہوا اور پاکستان سٹاک ایکس چینج میں 319پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ ستائیس مئی کو پاکستان کے اندر اور باہر سرمایہ کاروں کا پیغام یہ تھا کہ ملک ممکنہ طور پر تباہ کن دیوالیہ پن کو ٹالنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ حکومت کی اقتصادی اصلاحات کے بعد کیا پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے کے بچ چکا ہے؟

اِس سوال کا جواب ”ہاں“ ہے۔ بجٹ کے بعد کے منظر نامے میں افق پر کم از کم تین ممکنہ مثبت خبریں نمایاں نظر آ رہی ہیں۔ سب سے پہلے‘ پاکستان نے ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)‘ کے مقرر کردہ تقریبا تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں اور اِس پیشرفت سے بہت سی اچھی خبریں آ سکتی ہیں۔ دوسرا ’آئی ایم ایف‘ کی طرف سے اچھی خبریں سننے میں آ رہی ہیں اور تیسرا چین‘ سعودی عرب اور قطر کی طرف سے بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نکل چکا ہے تو کیا اِس کی معیشت کو اب کوئی دوسرا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ تو اِس سوال کا جواب ہے کہ ابھی بہت سے خطرات باقی ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے آئندہ بارہ ماہ میں غیر ملکی کرنسی پر پہلے سے طے شدہ قلیل مدتی نیٹ ڈرینز کا تخمینہ پندرہ ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اگلے مالی سال میں بیرونی مالی اعانت کی مجموعی ضرورت پینتیس ارب ڈالر ہے یقینا پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے سے تو باہر ہو چکا ہے لیکن بدستور ایک ایسی جگہ پر کھڑا ہے جہاں ایک چنگاری یعنی ایک غلط مالیاتی فیصلہ اِسے بہت بڑا اور بہت بُرا نقصان پہنچانے کی صورت تمام کئے دھرے پر پانی پھیر سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)