ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح نے بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کی امید پر پانی پھیر دیا ہے جو اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی جاری کردہ عالمی رپورٹ 2023ءمیں بھی اِس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے فیصلہ سازوں نے ”بھارت میں رہنے والی مذہبی اور دیگر اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے اور اِس کی وجہ سے بھارت کی دنیا میں بدنامی بھی ہو رہی ہے۔“ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے امتیازی سلوک محض تشدد کے واقعات سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا بھارت کے بارے میں تصور اِس کے قانون اور ماضی کی خصوصیات سے مختلف ہے۔ طاقت ور ہندو قوم پرستی کا عروج‘ اداروں کے وسیع پیمانے پر بھگوارنگ اور اکثریت پسندی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان‘ بھارت کو آہستہ آہستہ آئینی غیر جانبداری ترک کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایودھیا میں مندر اُسی زمین پر بنایا گیا ہے جہاں ہندو قوم پرستوں نے 1992ءمیں سولہویں صدی کی بابری مسجد کو منہدم کیا تھا اور جس کے نتیجے میں ملک گیر فسادات میں دو ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تشدد کے اس رجحان کا موازنہ بھارت میں گﺅ کشی یا نام نہاد ”لو جہاد“ کے الزامات پر مسلمانوں پر حملوں سے بھی ہوتا ہے۔ ایودھیا کے بعد سے واضح ہے کہ چاہے وہ ہجوم ہو‘ محافظ ہوں یا مسلمانوں کے گھروں کا بلاجواز انہدام‘ بھارت کی حکومت چاہتی ہے کہ مسلمان ہندو اکثریت کی مرضی کے تابع رہیں۔ مبینہ طور پر ستر ایکڑ پر تعمیر اور 250 ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ”رام مندر“ کی گرینائٹ دیواروں میں برداشت اور رواداری چن دی گئی ہے۔ بابری مسجد کا انہدام ایک غیر قانونی عمل تھا جس کے باوجود دیگر مقامات پر بھی مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاو¿ہ، بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے اِسے جائز قرار دیا ہے۔ سال 1992ءمیں بھارت کی سپرئم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا اور ساتھ ہی مسجد کی زمین ہندوو¿ں کے حوالے کر دی گئی‘ جو مسجد کی تباہی کے ذمہ دار تھے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اُور اُس کی افتتاحی تقریب میں وزیراعظم مودی کو بالی ووڈ کے مشہور فلمی اداکاروں کو بھی ساتھ لانا پڑا تاکہ تقریب میں عالمی اور ملکی میڈیا کے لئے کشش پیدا کی جا سکے۔ایودھیا فیصلے نے تیس سال پرانے پارلیمانی قانون پر بھی سمجھوتہ کیا‘ جس میں 1947ءمیں بھارت کی آزادی کے بعد عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت میں تبدیلیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ہندو قوم پرستی کی تحریک کے درپردہ یہ خیال پوشیدہ ہے کہ بھارت ایک ہندو سماج ہے جس میں مذہب کو نام کے علاو¿ہ ہر چیز میں ریاستی مذہب کو شامل کیا جاتا ہے۔ ’بی جے پی‘ کی بیان بازی میں لفظ ’انڈیا‘ کی جگہ ’بھارت‘ لفظ لگانا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ہندوستان کے بانیوں کے تصور کردہ سیکولر ملک میں بنیادی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یہ تصوراتی تبدیلی ایودھیا میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے رام مندر کے افتتاح کے ساتھ مکمل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ مذہبی پولرائزیشن کی وجہ سے مسجد کے انہدام نے بی جے پی کے لئے انتخابی کامیابی حاصل کرنا آسان بنا دیا ہے۔ مندر کی تزئین و آرائش وزیر اعظم مودی کی جانب سے اپنی حکومت کے ہندو قوم پرست مقصد کے حصول کے لئے کئی دیگر اہم سیاسی اقدامات کے بعد کی گئی ہے۔ اس میں بھارت کے غیرقانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت ختم کرنا‘ جو مسلمانوں کی اکثریت والی ملک کی واحد ریاست ہے اور متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ 2019ءمنظور کرنا شامل ہے۔سال دوہزارچوبیس کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل مندر کے افتتاح کے ساتھ ہی وزیر اعظم مودی نے اس بات میں کوئی شک نہیں چھوڑا کہ طویل مدتی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے تقسیم کرو اور حکومت کرو جیسی فرقہ وارانہ سیاست ان کی پارٹی پر غالب آ چکی ہے اُور یہی اُن کی انتخابی حکمت عملی بھی ہے۔ ’بی جے پی‘ کے دوبارہ منتخب ہونے کے مسلم کمیونٹی پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں‘ یعنی اُنہیں مزید محکوم اور پسماندہ بنایا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایودھیا اور اس کے پریشان کن نتائج ایک نئے بھارت کا عکس ہیں جس میں اقلیتوں کے لئے برداشت کی گنجائش نہیں؟ ایک ایسا بھارت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا جہاں قانون و انصاف کی بجائے ریاستی جبر کی حکمرانی ہو۔ وزیر اعظم مودی کی حکومت اکثر یہ دلیل دیتی ہے کہ وہ صرف تاریخی ناانصافیوں کو درست کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتہاپسند پالیسیاں ہندو قوم پرستی کو تقویت دے رہی ہیں اور بھارت میں اقلیتیں خود کو ہر دن پہلے سے زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہی ہیں۔ اِس کو سیاسی طاقت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے ’مشترکہ قومی تانے بانے کے اتحاد کو خطرہ لاحق ہے جو ہزاروں سالوں سے زبان‘ نسل اور عقیدے کے ان گنت رنگین دھاگوں سے بندھا ہوا ہے۔ کیا جمہوری بھارت آئینی سیکولرازم کے بغیر صحیح معنوں میں زندہ رہ سکے گا؟ بھارت میں مسلمانوں کے لئے بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور بالخصوص ہندوانتہا پرستی کسی ڈراو¿نے خواب کی طرح ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سبینہ بابر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
ایودھیا میں رام مندر بنائے جانے سے جہاں مسلمانوں کے زخم تازہ ہوئے ہیں وہیں بھارت میں اقلیتیں اپنے مستقبل کو لے کر ’غیر یقینی‘ سے دوچار ہیں۔