مصنوعی ذہانت کی دوڑ

مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس اے آئی) سے چلنے والی تکنیکی ترقی کا تعاقب دنیا بھر میں سٹارٹ اپس کے لئے اہم بن چکا ہے۔ مسابقتی ٹیک مارکیٹ میں کراس کٹنگ ٹیکنالوجیز میں سب سے آگے رہنے کی ضرورت کا احساس بھی بڑھ رہا ہے۔ اس تناظر میں‘ اوپن اے آئی‘ گوگل‘ ایکس اے آئی‘ میٹا اور مائیکروسافٹ وغیرہ جیسی ٹیک کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے ساتھ اپنے چیٹ بوٹس یا  سرچ انجنوں کو توانا (جامع) بنانے کے لئے ہر ممکنہ کوششیں کر رہی ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں سے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نئے اقدامات سے متعلق خبریں انٹرنیٹ پر چھائی ہوئی ہیں۔ اوپن اے آئی چیٹ جی پی ٹی اور اس کا  نیا ورژن فور مستقل طور پر سرخیوں میں رہا ہے۔ نئی اختراعات سے  چیٹ بوٹس کو طاقت ملی ہے۔ یہ الفاظ کو تصاویر سے بدل سکتے ہیں اور ڈیجیٹل اسسٹنٹ (معاون) کے طور پر کام کرے گا۔ توقع ہے کہ اس ماڈل میں مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (اے جی آئی) کو بھی استعمال کیا جائے گا۔ مشینوں کی انسانی صلاحیتوں کے برابر کام انجام دینے کی صلاحیت میں یہ اضافہ حیرت انگیز حد تک تیزی سے جاری ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کے متوازی‘ گوگل نے اپنی اے آئی ماڈل سیریزجیمنی میں نئے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس نے حال ہی میں جیمنی ون پوائنٹ فائیو پرو کو ونڈو کے ساتھ لانچ کیا ہے۔ یہ ورژن تقریباً پینتیس زبانوں کے لئے کام کرتا ہے اور اس میں بہتر استدلال اور بہتر امیج کی شناخت ہوتی ہے۔ گوگل کے سی ای او سندر پچائی کے مطابق‘ اس ماڈل میں کسی بھی ماڈل کی سب سے طویل سیاق و سباق فراہم کئے گئے ہیں‘ جس کا مطلب ہے کہ یہ اپنے حریفوں کی طرف سے اسی طرح کے دیگر اے آئی ماڈلز کے مقابلے میں زیادہ ڈیٹا کا استعمال کرنے کے قابل ہوگا۔ قابل ذکر ہے کہ جیمنی ون پوائنٹ فائیو کو اوپن اے آئی کے جی پی ٹی فور کو لانچ کرنے کے صرف ایک دن بعد منظرعام پر لایا گیا تھا‘ جو جاری مقابلے کی نوعیت کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسری طرف ایلون مسک کا سٹارٹ اپ ایکس اے آئی بھی تیزی سے تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اِس سٹارٹ اپ نے چھ ارب ڈالر جمع کئے ہیں‘ جس سے اس کی مالیت بڑھ کر چوبیس ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ نئی حاصل کردہ فنڈنگ کو کراس کٹنگ انفراسٹرکچر بنانے‘ نئی مصنوعات لانچ کرنے اور نئی ٹیکنالوجیوں کی تخلیق میں تیزی لانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ گروک جو کہ چیٹ جی پی ٹی فور کا بہتر ورژن ہے‘ ایکس اے آئی کے ذریعہ اعلان کردہ نمایاں اقدامات میں سے ایک ہے۔ فی الحال‘ چیبوٹ صرف ایکس (سابقہ ٹویٹر) پریمیم صارفین کے لئے دستیاب ہے۔ چیبوٹ کو ایکس کے ذریعے حقیقی وقت کی معلومات تک رسائی دی گئی ہے‘ اسے مزاحیہ انداز میں سوالات کا جواب دینے کے لئے بھی ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کی فطرت کو ’باغی‘ رکھا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے مسک نے چیٹ بوٹ کو سپر کمپیوٹر سے طاقت دینے کے ارادے اور منصوبے کا بھی انکشاف کیا تھا۔ میٹا (فیس بک) بھی اس طرح کے منصوبوں کی دوڑ میں شامل ہے۔ گزشتہ ہفتے گرگٹ کی ٹیم کی جانب سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کو مختلف میڈیا اداروں کی توجہ کا مرکز رہا جس گرگلون کے نام سے کثیر الجہتی ماڈل کا انکشاف کیا گیا تھا۔ ماڈل کی درستگی اور متن یا تصاویر پر مشترکہ طور پر کام کرنا اِسے نئی صلاحیتوں سے لیس کرتی ہے‘ جو اسے گزشتہ ماڈلز سے منفرد بناتا ہے اگرچہ مائیکروسافٹ نے مصنوعی ذہانت میں کامیابیوں کو تیز کرنے کے لئے ’اوپن اے آئی‘ کے ساتھ ملٹی بلین ڈالر کا تعاون کیا ہے لیکن یہ اپنے ماڈلز پر بھی کام کر رہا ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں مائیکروسافٹ کا لینگویج لرننگ ماڈل ایم اے آئی ون منظر عام پر آیا تھا۔ یہ ماڈل مائیکروسافٹ کے پہلے تربیت یافتہ ماڈلز سے کہیں بڑا ہوگا اور اپنے حریفوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بہتر پوزیشن میں ہوگا اگرچہ ہم سرچ انجن اور چیٹ بوٹس میں مصنوعی ذہانت کے انضمام کی موجودہ سطح سے متاثر ہیں لیکن مزید اختراعات ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ درحقیقت‘ اس وقت استعمال ہونے والے ہائبرڈ اے آئی سرچ انجن نئی قسم کی ترقی کر سکتے ہیں‘ جو زیادہ انسان جیسی صلاحیتیں ہوں گی۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس طرح کی تیز رفتار پیش رفت کے مضمرات بھی ہیں۔ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے تیز رفتار ترقی اور بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مستقبل کے ٹیک منظرنامے کو کون تشکیل دے گا‘ اِس پر کون کون اثر انداز ہوگا‘ اجارہ داری کس کی ہو گی اور بالآخر کنٹرول کون کرے گا۔ مزید برآں‘ تکنیکی ترقی میں اضافہ اس شعبے میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو بھی ظاہر کررہا ہے تاہم‘ یہ تیزی سے ترقی بھی ایک اہم چیلنج پر روشنی ڈالتی ہے جو قانونی فریم ورک ہے کیونکہ ریگولیشنز اور نگرانی سے متعلق قواعد و ضوابط میں ممکنہ خلاء پیدا ہوا ہے۔ یورپی کمیشن کی جانب سے سال دوہزاراکیس میں تیار کردہ ’اے آئی ایکٹ‘ کو بالآخر بائیس مئی کو منظور کیا گیا تھا لیکن اس کا اطلاق ستائیس ممالک کے بلاک میں دوہزارچھبیس میں ہوگا اگرچہ یہ ماڈل زیادہ ڈیٹا پر کاروائی کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں لیکن اخلاقی خدشات کو برقرار رکھنا بھی اپنی جگہ ایک چیلنج ہے۔ واضح رہے کہ اوپن اے آئی کی سپر الائنمنٹ ٹیم کی قیادت کرنے والی دونوں ٹیموں ایلیا سوتسکیور اور جان لیک نے رواں ماہ کمپنی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شازہ عارف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


اِن اہم افراد کے جانے سے مصنوعی ذہانت پر اٹھائے جانے والے اخلاقی پہلوؤں کے حوالے سے خدشات اور شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپن اے آئی کے شریک بانیوں میں سے ایک ایلون مسک نے سٹارٹ اپ کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے انسانیت کے مفادات کی خدمت کے اپنے ابتدائی مقصد سے انحراف کیا ہے۔